487

سرپرائز ٹیسٹ

اسکول کے زمانے میں امتحانات تین قسم کے ہوتے تھے، کلاس ٹیسٹ۔۔۔۔ منتھلی ٹیسٹ اور مڈ ٹرم یا فائنل ایگزام۔ ماہوار اور فائنل امتحانات کے لیئے پہلے سے سلیبس دیا جاتا پھر اسی کے مطابق تیاری کروائی جاتی اور مقرر کردہ تاریخ پر امتحان لیا جاتا تھا جبکہ کلاس ٹیسٹ ہفتہ وار بنیاد پر ہوتے یہ استاد کی صوابدید پر ہوتا کہ وہ کلاس ٹیسٹ کیسے لیتا ہے، پہلے سے بتا کر لے یا اچانک سے “سرپرائز ٹیسٹ” لے لے۔۔۔۔۔
سرپرائز ٹیسٹ ہی دراصل طالبعلوں کی اہلیت و قابلیت کا امتحان ہوتا ہے کیونکہ مقررہ وقت پر پہلے سے بتائے گئے ابواب کی تیاری تو ہر کوئی کر ہی لیتا ہے۔۔۔۔ اصل امتحان تو تب ہی ہے کہ جب اسٹوڈنٹ کے وہم و گمان میں بھی نا ہو اور اچانک سے اسے پتہ چلے کہ ٹیسٹ ہونے لگا ہے۔
ایسے ٹیسٹ میں اگر مشکل درپیش آجائے کوئی سوال out of course آجائے تو طالبعلموں کا رد عمل دو طرح کا ہوتا ہے۔۔۔۔ یا تو وہ “چیٹنگ” یعنی کتاب کھول کے نقل کی کوشش کرتے ہیں ادھر ادھر تانکا جھانکی کرتے ہیں کہ شاید کہیں سے کوئی hint کوئی clue مل جائے یا پھر وہ سیدھا جا کر استاد سے رجوع کرتے ہیں۔۔۔۔۔ کہ سر جی یہ سوال ہمیں سمجھ نہیں آرہا اسے کیسے حل کریں یہ ہم سے نہیں ہو پا رہا۔۔۔
استاد نے ہی تو وہ ٹیسٹ بنایا ہے اور سوال حل بھی تو استاد نے ہی کروانے ہیں، وہ تو بس آزمائش کر رہا ہوتا ہے کہ جواب معلوم نا ہونے پر کون کیا کرتا ہے، اور پھر جیسے دو سمندروں کے درمیان ان دیکھی آڑ ہوتی ہے جو میٹھے پانی کو کھارے پانی سے الگ کردیتی ہے اسی طرح اس آزمائش کے ذریعے طالبعلم نتھارے جاتے ہیں۔
ہماری زندگی کی آزمائشیں بھی اسی سرپرائز ٹیسٹ کی مانند ہوتی ہیں۔۔۔ رب ذوالجلال جو دلوں کی اتھاہ گہرائیوں میں چھپے بھیدوں سے بھی واقف ہے وہ سرپرائز ٹیسٹ کے ذریعے ہمارا اپنا کردار ہمارے سامنے لے آتا ہے اور ہم کورا کاغذ تھامے ادھر ادھر دیکھتے رہتے ہیں کہ شاید کہیں سے کوئی کلیو مل جائے کوئی hint مل جائے۔۔۔۔ ہم حالت پریشانی میں بھاگ دوڑ کرتے ہیں اپنی توانائیاں غلط جگہ ضائع کرتے رہتے ہیں۔
ٹیسٹ بنانے والے سے رجوع ہی نہیں کرتے ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ بچہ ماں کے پاس جائے اور ماں اسکی طرف متوجہ نا ہو۔۔۔ اسکی بات نا سنے اسکی پریشانی دور کرنے کی کوشش نا کرے
وہ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا، سارا عالم اسکے ایک “کن” کا محتاج۔۔۔ وہ تو کانٹا چبھنے جیسی تکلیف پر بھی اضافی نمبر دیتا ہے
پھر ہم اس سے رجوع کیوں نہیں کرتے؟؟ ہم بھاگ بھاگ کے تھک جاتے ہیں۔۔۔ گر جاتے ہیں۔۔۔ ہار جاتے ہیں، ہار جانے کے بعد تو سرینڈر کرنا ہی پڑتا ہے ہم پہلے ہی کیوں نہیں سر جھکا دیتے اسکے در پر؟ ہم کیوں نہیں ٹیسٹ پیپر اسکے حضور رکھ کے گزارش کرتے کہ اے مالک یہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔۔۔ یہ ہم سے نہیں ہوپا رہا اسے ہمارے لیئے آسان کردے۔۔۔۔
بندگی پہلے قدم پر اپنی ذات کی نفی کر کے رب کائنات کے حضور سر جھکا دینے کا نام ہے، انسان جتنا بھاگ لے جتنا زور لگالے وہ سرپرائز ٹیسٹ میں اسوقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ بندگی کی سیڑھی پر قدم نا رکھ لے، سلیبس ہمارے پاس موجود ہے۔۔۔ مڈٹرم اور فائنل ایگزام میں ابھی وقت باقی ہے، لیکن “سرپرائز ٹیسٹ” تو کبھی بھی ہوسکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں