311

ووٹ کو عزت دو

قومی اسمبلی کے 102 میں سے صرف 6 اجلاسوں میں تشریف لانے والے نواز شریف نااہل ہوئے تونظریاتی ہو گئے۔ بتایا جاتا ہے، وطن عزیز میں و ہ واحد رجل رشید ہیں جن پاس ایک بیانیہ ہے: ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘۔ اس بیانیے کے میمنہ میسرہ پر وہ جنگجو کھڑے ہیں جنہوں نے پرویز مشرف کے بوٹ کے تسموں کو زلفِ یار کے خم سمجھ کر دلِ پُر آرزو لُٹا دیا تھا۔ بیانیہ اور ملک الشعراء مل کر ہم طالب علموں کو گدگداتے ہیں تومیر تقی میر یاد آتے ہیں :’’ آباد ، اجڑا لکھنؤ، چغدوں سے اب ہوا‘‘۔

روز ایک نیا شعبدہ ، روز ایک نیا دھوکہ ۔ سیاست کا میدان نہ ہوا لنڈا بازار ہو گیا ۔ گرمیاں آئیں تو بنیان بیچنا شروع کر دی جاڑا اترا تو کمبل کے تاجر بن گئے۔ کبھی کہا قرض اتارو ملک سنوارو اور کبھی 35ارب ڈالر کا قرض لے لیا، کبھی کہا اب لینا ہے کشمیر ٹوٹے شملہ کی زنجیر تو کبھی فرمانے لگے سرحد تو محض ایک لکیر ہے ہم بھی آلو گوشت کھاتے ہیں وہ بھی آلو گوشت ، کبھی چھانگا مانگا سے مری تک ضمیر کا نیلام سجا لیا اور کبھی ووٹ کی حرمت کا پرچم بلند کر لیا ، کبھی ایسے شخص کو صدر پاکستان بنا دیا جسے اس خبر کا یقین کرنے کے لیے اپنی ران پر چٹکی کاٹنا پڑی اور کبھی منتخب چیئر مین سینیٹ کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ کبھی عدلیہ پر چڑھ دوڑے تو کبھی اس کی آزادی کا علم اٹھا لیا ، کبھی ججوں کو فون پر فیصلے لکھوائے تو کبھی انہیں سینگوں پر لے لیا ۔ یہ تو سیدھا سادھا کاروبار ہے اس میں نظریہ کہاں سے آگیا ؟ بس اتنا ہوا کہ منڈی کی اصطلاحات میں کچھ جدت آگئی لنڈے کو اتوار بازار کہا جانے لگا اور شعبدے کا نام بیانیہ رکھ دیا گیا ۔

بیانیہ وہ دیتے ہیں جنہیں علم اور کتاب سے کبھی شغف رہا ہو، جن کے محلات میں فون ڈائرکٹری کے علاوہ کوئی کتاب نہ ہو ، جو شرافت کی صحافت کے علاوہ کسی سے بات نہ کر سکیں ، اور جنہیں امریکی صدر کی فکری رہنمائی کے لیے جیب سے چٹیں نکال کر پڑھنا پڑیں ان کے نام بیانیے کی تہمت رکھنا کسی کی خوش فہمی تو ہو سکتی ہے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔

ابھی کل نظریاتی سیاست نے کچھ نئے اقوال زریں سنائے ۔ سیاسی وفاداری بدلنے والوں کو ٹکٹ نہیں دیا جائے گا ، ایسے لوگوں کو سخت سزائیں دی جانی چاہییں ۔ ا س لمحے مجھے سید ظفر علی شاہ بہت یاد آئے ۔ پرویز مشرف کے دور میں یہ ظفر علی شاہ تھے جنہوں نے قانونی جنگ لڑی ۔ آج وہ ظفر علی شاہ کہاں ہیں ؟ تماشا دیکھیے ،نظریاتی سیاست دان اب مشاہد حسین سید کو سینیٹر بنوانے کے بعد بغل میں بٹھا کر وعظ فرماتے ہیں کہ سیاسی وفاداری بدلنے والوں کو سخت سزائیں دینی چاہییں ۔ اس پر احباب حکم لگاتے ہیں کہ بیانیہ تو صرف نظریاتی سیاست دان کے پاس ہے ۔

یہی اقوال زریں ہمیں اس وقت بھی سنائے گئے جب صاحب جلاوطنی کاٹ کر واپس آئے۔ کہا گیا اب یہ ایک سیاست دان نہیں بلکہ مدبر بن کر لوٹے ہیں ۔ اب وقت نے انہیں بہت کچھ سمجھا دیا ہے اب یہ اصولوں کی سیاست کریں گے۔ لیکن نظریاتی سیاست دان نے چند ہی مہینوں میں ثابت کر دیا کہ وہ جیسے گئے تھے ایسے ہی تشریف لائے ہیں ۔بنیان بکے گی تو بنیان بیچیں گے اور کمبل کا ریٹ بڑھے گا تو کمبل فروخت کریں گے۔ چنانچہ آپ دیکھ لیجیے ، وطن واپسی کے بعد انتخابات کا مرحلہ آیا تو نظریاتی سیاست دان نے مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی کے 146 لگوں کو ٹکٹ جاری فرما دیے جو اس سے پہلے جنرل پرویز مشرف کے وفادار تھے۔ کیوں؟ اس لیے کہ سیاست ایک کاروبار تھی اور کاروبار میں کوئی اصول نہیں ہوتا ۔

لوٹوں سے دربار سجا لینے کے بعد شاہ معظم فرما رہے ہیں وفاداریاں بدلنے والوں کو سزا دی جانی چاہیے ۔ کوئی ہے جو شاہ معظم کو سمجھا سکے کہ ایک وقت میں سارے جہاں کو بے وقوف بنایا جا سکتا ہے اور اپنے حصے کے چند بے وقوفوں کو ساری عمر اندھیرے میں رکھا جا سکتا ہے لیکن تمام لوگوں کو ہمیشہ بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔

حیرت ہے اسے سادگی کہا جائے، تجربے کا نام دیا جائے یا ڈھٹائی کہا جائے ، یہ آج کس منہ سے اس عزم کا اعلان کیا جا رہا ہے کہ سیاسی وفاداری بدلنے والوں کو ٹکٹ نہیں دیا جائے گا؟ یہ اصولوں کا علم کب سے آپ نے تھام لیا ؟ یہ بیانیے جیسا مشکل لفظ کہاں سے آپ سن لیا ؟جنرل جیلانی سے لے کر آئی جے آئی تک آپ کے ماضی کو تو ناتجربہ کار ی قرار دے کرآپ کو شک کا فائدہ دیا جا سکتا ہے لیکن آپ کے حال کا کیا کیاجائے؟ آپ کے ماضی اور آپ کے حال کی سیاست میں فرق ہی کتنا ہے؟

کیا آپ نے جنرل مشرف کے گورنر جنرل عبدالقادر بلوچ کو وفاقی وزیر نہیں بنایا ؟ کیا آپ نے جنرل مشرف کے وزیر قانون کو اپنا وزیر قانون نہیں بنایا؟ کیا آپ نے جنرل مشرف کے سیاسی رفیق سردار یوسف کو وزیر مذہبی امور کا عہدہ نہیں دے رکھا ؟ کیا مشرف کی ٹیم کی کشمالہ طارق کو آپ نے وفاقی محتسب نہیں بنا رکھا ؟ کیا مشرف ٹیم کی رکن ماروی میمن آپ کی جماعت کا اہم ستون نہیں بنی رہیں ؟ کیا مشرف دور کے وزیر مملکت برائے خزانہ عمر ایوب بعد میں آپ کی صف میں نہیں شامل ہوئے؟ کیا مشرف دور کی وزیر مملکت برائے سیاحت سمیرا ملک اب ن لیگ میں نہیں ہیں ؟ کیا مشرف دور میں نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو کے چیئر مین دانیال عزیز اب آپ کی حکومت میں نجکاری کے وزیر نہیں ہیں ؟ کیا آپ کے پارلیمانی سیکرٹری ارمغان سبحانی مشرف دور میں پنجاب کی وزارت پر فائز نہیں رہے؟ کیا آپ کے وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری مشرف دور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر نہیں تھے ؟ کیا مبینہ طور پر پرویز الہی کی گاڑی کے آگے دھمال ڈالنے والے طلال چودھری اس وقت آپ کے وزیر مملکت برائے داخلہ نہیں ہیں ؟ کیا مشرف دور کی صوبائی وزیر نغمہ مشتاق کو شہباز شریف نے اپنی کابینہ میں شامل نہیں کیا ؟ کیا مشرف دور کے صوبائی وزیر رانا ااعجاز اس وقت آپ کی جماعت کا حصہ نہیں ؟ کیا سکندر حیات بوسن جو مشرف دور میں سات سال خوراک و زراعت کے وزیر رہے اس وقت آپ کی نظریاتی کابینہ میں بھی وززیر کے مرتبے پر فائز نہیں ؟ کیا مشرف دور کے وزیر صحت ریاض حسین پیرزادہ کو آپ نے وفاقی وزیر نہیں بنایا ؟ اور تو اور آپ تو اتنے اصولی نکلے کہ آپ نے مشرف کے وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی کو بھی مسلم لیگ ن میں شامل کر لیا ؟ جی ہاں وہی جمالی صاحب جو فرمایا کرتے تھے صدر صاحب کی اپنی وردی ہے چاہے اتاریں چاہے نہ اتاریں ۔ کیا جنرل پرویز مشرف کے پستول بدل بھائی اور ان کے دور کے وزیر برائے پانی و بجلی امیر مقام اس وقت مسلم لیگ ن کے پی کے کی صدارت کے رتبے پر فائز نہیں کیے جا چکے ؟ کیا مشرف دور کے وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات طارق عظیم اس وقت مسلم لیگ کا حصہ نہیں اور کیا آپ نے ان کی عظیم خدمات کے صلے میں انہیں کینیڈا میں ہائی کمشنر تعینات نہیں کیا ؟ کیا لیاقت جتوئی جو جنرل پر ویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر صنعت اور پھر وزیر برائے پانی و بجلی بنائے گئے کیا آپ نے انہیں مسلم لیگ ن میں شامل نہیں کیا، یہاں تک کہ انہوں نے خود ہی ن لیگ سے استعفی دے دیا ؟ کیا مسلم لیگ ق کے چالیس ایم پی ایز سے طاہر علی جاوید کی سربراہی میں آپ نے معاملہ کرتے وقت آپ نے ووٹ کے تقدس کا سوچا تھا ؟


بیانیہ تو واضح ہے ۔ اقتدار چاہیے ، ہر حال میں ، ہر قیمت پر۔ اور اقتدار بھی شہنشاہوں والا ۔ کوئی روکنے والا نہ ہو۔ تمام ادارے ہاتھ باندھے کھڑے ہوں کب بادشاہ سلامت کی ابرو جنبش کرے اور وہ حکم بجا لائیں ۔ اس خواب کی تعبیر میں سماج کا ستیا ناس کر دیا گیا ۔ خداموں کے لشکر ہیں جو رات سوتے میں بھی کونش بجا لاتے ہیں ۔ سیاست ہی کو نہیں پورے معاشرے کو شرافت کا نیا رنگ دے دیا گیا ہے۔ ظل سبحانی سے کوئی پوچھے، بھولے بادشاہو ! آپ کے درباریوں کے اثاثے 91 گنا تو بڑھ چکے ، ووٹ کو اور کتنی عزت چاہیے ؟
خدا جانے استاد ذوق کیوں یاد آ گئے: 
’’ ترے کوچے کو وہ بیمارِ غم دارالشفا سمجھے 
اجل کو جو طبیب اور مرگ کو اپنی دوا سمجھے‘‘

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں