Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
250

انشورنس پالیسی والی لڑکی۔

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

ایک بیمہ کمپنی کی لڑکی جو غالبا” کمپنی میں نئی نئی بھرتی ہوئی تھی میرے پاس پالیسی بیچنے آئی. سلام کے بعد کہنے لگی.
“سر! میں “فلاں” انشورنس کمپنی سے آئی ہوں. ہماری کمپنی نے کچھ نئی پالیسیز کا آغاز کیا ہے. اگر آپ کہیں تو میں تفصیل بیان کروں”
میں بھی فارغ بیٹھا تھا سو میں نے کہا.
“جی پلیز!”
اس نے ایک کاغذ کھولا اور پڑھنا شروع کیا.
“سر! فرض کریں کہ آپ نے ہماری یہ پالیسی خرید لی اورآپ کے ساتھ اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش آئے تو ہماری کمپنی آپ کو مندرجہ ذیل رقم ادا کرے گی”
اس کے بعد اس نے میرا بلڈ پریشر ہائی کرنا شروع کردیا.
“سر! فرض کریں کہ حادثے میں آپ کے سیدھے ہاتھ کا انگوٹھا کٹ جاتا ہے تو کمپنی آپ کو ….. روپے ادا کرے گی
اور اگر سب سے چھوٹی انگلی… جسے چھنگلی بھی کہتے ہیں… کٹ جائے تو کمپنی آپ کو …… روپے ادا کرے گی
اور اگر شہادت کی انگلی کٹ جاتی ہے تو کمپنی آپ کو …… روپے ادا کرے گی اور اگر درمیانی انگلی کٹ جاتی ہے تو کمپنی آپ کو …… روپے ادا کرے گی”
میں انتظار ہی کرتا رہ گیا کہ وہ ایک لمحے کو چپ ہو تو میں بھی کچھ کہوں مگر اسے تو طوطے کی طرح رٹا کے بھیجا گیا تھا.
“اب سر! آئیے… الٹے ہاتھ کی طرف. فرض کریں آپ کے الٹے ہاتھ کا انگوٹھا کٹ گیا تو آپ کو….”
میں نے درمیان میں مداخلت کی.
“ایک منٹ بی بی … ایک منٹ ! اس پالیسی میں اور کچھ بھی ہے…یہ کٹنے کٹانے کے علاوہ؟”
اس نے بڑے جوشیلے انداز سے اپنے بالوں کو جھٹکا دیا اور ایک آوارہ لٹ کو سائیڈ میں کان کے اوپر دباتے ہوئے بولی.
“سر! ابھی تو آپ نے پوری تفصیل سنی ہی نہیں. فرض کریں خدانخواستہ آپ کا پورا ہاتھ کٹ کے گر گیا”
اب بات میری برداشت کی “لائن آف کنٹرول” سے باہر ہوگئ. میں نے ایک دم اسے رکنے کا اشارہ کیا اور پھر میرے منہ سے جو آواز نکلی وہ ہلکی سی چینخ کی طرح تھی.
“رکو… رکو… رکو…آپ کی پالیسی گئی بھاڑ میں …”
وہ میرا منہ دیکھنے لگی.
“جی؟”
میں نے کہا
“یہ آپ نے کیا لگا رکھا ہے.. انگلی کٹ گئی… انگوٹھا کٹ گیا…ہاتھ کٹ گیا….آپ نے تو میرا بی پی ہائی کردیا “
کہنے لگی
“سر! مگر میں نے تو “خدانخواستہ” بھی کہا ہے”
میں نے کہا
” ارے… خدانخواستہ کہنے کے بعد بھی آپ یہ کیسے کہہ سکتی ہو کہ ہاتھ کٹ گیا اور انگوٹھا کٹ گیا”
اس نے بڑے معصومانہ انداز میں میری طرف دیکھا.
“سر! پھر میں آپ کو تفصیل کیسے بتاؤں؟”
مجھے اس کی معصومیت پر رحم آگیا. اس بیچاری کا کیا قصور… کمپنی والوں نے جو جو رٹایا… وہ اس نے سنا دیا”
میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا.
” دیکھو بی بی! یہاں تو تم نے جو کہنا تھا کہہ دیا . اب کہیں اور جاؤ نا تو مخاطب سے یہ نہ کہو کہ فرض کریں آپ کا ہاتھ کٹ گیا … یا انگوٹھا کٹ گیا.. یا انگلی کٹ گئی”
اس نے جھٹ سے سوال کیا.
“تو پھر کیا کہوں؟”
میں نے کہا.
” وہاں آپ تھرڈ پرسن کی بات کرو…. مخاطب سے کہو…کہ فرض کریں کہ جس شخص نے ہماری یہ پالیسی لی… اللہ نہ کرے… اللہ نہ کرے… اللہ نہ کرے….یہ آپ نے تین بار کہنا ہے “
وہ حیرت سے میرا منہ تکتی رہی. “جی”
میں نے بیان جاری رکھا. “سمجھیں؟ یہ آپ نے تین بار کہنا ہے کہ اللہ نہ کرے اگر کسی شخص نے ہماری پالیسی خریدی اور اس کے ساتھ کوئی حادثہ ہوگیا اور وہ خدانخواستہ… خدانخواستہ…. اپنی انگلی سے محروم ہوجاتا ہے تو کمپنی اسے اتنی رقم دیگی…کیا سمجھیں؟”
وہ بولی…”واہ… بہت خوب…. یہ تو آپ نے اچھی بات بتائی… یعنی میں نے اس کا نہیں کہنا.. بلکہ کسی تھرڈ پرسن کی بات کرنی ہے؟”
میں نے کہا.
“ہاں بالکل … آپ نے تھرڈ پرسن کی بات کرنی ہے کہ اس کا ہاتھ کٹ گیا.. اس کا انگوٹھا کٹ گیا “
بے خیالی میں سر کھجاتے ہوئے کہنے لگی.
“سر! یہ تو آپ نے بہت ہی اچھی بات بتائی…مگر..تو پھر آپ یہ پالیسی خریدیں گے؟”
میں نے ہنستے ہوئے کہا
” میرے پاس آپ پالیسی تو نہیں بیچ پائیں… مگر کچھ سیکھ کے جارہی ہیں … یہی کافی نہیں؟”
ہنستے ہوئے کھڑی ہوگئی
” جی جی بالکل بالکل.. اوکے سر تھینک یو.. آپ نے اتنا اچھا گائیڈ کیا”
میں نے بھی ہنستے ہوئے کہا. “یہ صرف اس لئے کیا ورنہ شام تک آپ مجھ جیسے کئی لوگوں کو امراضِ قلب کے ہسپتال پہنچا چکی ہوتیں”
اس نے زور کا قہقہہ لگایا اور رخصت ہوئی.

اپنا تبصرہ بھیجیں