280

سیز فائر کی خلاف ورزی ہوئی تو منہ توڑ جواب دیں گے: مودی

نئی دہلی — وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ماہانہ ریڈیو پروگرام ’من کی بات‘ میں اتوار کے روز دھمکی دی کہ اگر پاکستان کی جانب سے سرحد پر سیز فائر کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور امن کو درہم برہم کرنے اور تشدد میں اضافے کی نیت سے دوسرے اشتعال انگیز اقدامات کیے جاتے ہیں تو بھارتی فوج اس کا سختی سے جواب دے گی۔

انھوں نے کہا کہ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اگر کسی جانب سے امن کے ماحول کو تباہ کرنے اور ہمارے ملک کی ترقی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے تو ہماری افواج دنداں شکن جواب دیں گی۔

وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ہم امن میں یقین رکھتے ہیں اور ہم اسے آگے بڑھانے کے عہد کے پابند ہیں لیکن اپنی عزت نفس اور ملک کے اقتدار اعلیٰ کی قیمت پر نہیں۔

وزیر اعظم کے بقول ہم نے کسی دوسرے ملک کے علاقے پر بد نیتی سے کبھی بھی نظر نہیں ڈالی۔ امن کی خاطر یہ ہمارا عہد ہے۔

نریندر مودی کے اس بیان کو یہاں سیاسی و صحافتی حلقوں میں پاکستان کو ایک انتباہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس سے قبل آرمی چیف جنرل بپن راوت، وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ، وزیر خارجہ سشما سوراج اور وزیر دفاع نرملا سیتا رمن کی جانب سے بھی اس قسم کے بیانات دیے جاتے رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے جب وزیر اعظم نے اس لب و لہجے میں گفتگو کی ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم کے اس بیان کو ملکی حالات کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔

ایک سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر شمشاداحمد خاں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے بیانات کشیدگی میں کمی کے بجائے اضافے کا سبب بنیں گے۔

انھوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ دوسری جانب سے بھی ایسے بیانات دیے جا سکتے ہیں جن سے کوئی بھلا ہونے والا نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کے راہنماؤں کو ملکی حالات کے تحت بیانات دینے کے بجائے باہمی کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

تاہم تجزیہ کار نے اس امید کا اظہار کیا کہ کشیدگی کی گرد بیٹھنے کے بعد دونوں ملکوں کے مابین ٹریک ٹو بات چیت کا سلسلہ چلے گا۔

اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس میں وزیر خارجہ سشما سوراج کی تقریر کو بھی ملکی حالات کو سامنے رکھ کر کی گئی تقریر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان سیز فائر کی خلاف ورزی اور دہشت گردی کے بھارت کے ہر الزام کو سختی سے مسترد کرتا ہے اور وہ بھی بھارت پر اسی قسم کے الزامات عائد کرتا ہے۔

پاکستان بھی خطے میں قیام امن کی وکالت کرتا ہے اور اس کے لیے باہمی مذاکرات کو شروع کرنے کے لیے بھارت پر زور ڈالتا رہتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں