Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
571

ہم بچے ہیں پڑھنے والے ۔۔۔

اللہ اکبر

اللہ اکبر، اللہ اکبر
یعنی اللہ سب سے برتر

یہ مت پوچھو وہ ہے کیسا
کوئی نہیں ہے اس کے جیسا

قرآں کا ہر پارہ شاہد
وہ ہے یکتا اور ہے واحد

سورج، چاند اگانے والا
تاروں کو چمکانے والا
کیسے کیسے باغ لگائے
رنگ برنگے پھول کھلائے

سب کو روزی دینے والا
سب کی نیا کھینے والا

وہ چاہے تو عزت دے دے
دولت دے دے ، شہرت دے دے

سب کا مالک، سب کا حاکم
اس کے آگے جھکنا لازم

اس دنیا سے اس دنیا تک
یعنی ادنیٰ سے اعلیٰ تک

دیکھ کے حیراں رہ جاتے ہیں
سب ہی اس کے گن گاتے ہیں

صبح و شام سبھی کے لب پر
اللہ اکبر، اللہ اکبر
٭٭٭

حمد باری تعالیٰ

کب خاروخس ہیں تیرے بے کار جانے والے
سامان ہیں جہاں کے سب کام آنے والے

عقل و شعور سے بھی تٗو نے ہمیں نوازا
علم و ہنر بھی بخشے عزت بڑھانے والے

تاریکیوں کو تٗو نے تخلیق کر کے مولا!
شمس و قمر بنائے ظلمت مٹانے والے

تٗو نے کرم سے اپنے دامان آسماں پر
تارے سجا دیئے ہیں کیا جگمگانے والے

کہسار کی بدولت ہے وادیوں کی رونق
باغات ہیں زمیں کی زینت بڑھانے والے

چمپا، گلاب، جوہی، یا بیلا یا چنبیلی
سب پھول ہیں جہاں میں جادو جگانے والے

شاخ شجر کو تٗو نے اثمار سے نوازا
پتے بھی دے دیئے ہیں تالی بجانے والے

ندیاں بہائیں تٗو نے سیراب کرنے والی
ہیں موجزن سمندر گوہر لٹانے والے

جھرنوں کو نغمگی دی اور راگنی پون کو
شہکار کیسے کیسے ہیں گنگنانے والے

گل پیرہن بہاریں ، برسات بھی سریلی
موسم عطا کیے ہیں کیا دل لبھانے والے

طاؤس کس ادا سے مستی میں ناچتے ہیں
پنچھی بھی خوب تیرے ہیں گیت گانے والے

تیرا فراغؔ کیا ہے ، حور و ملک بھی یارب!
تیرے حضور میں ہیں سب سر جھکانے والے
٭٭٭

دعا

سن لے دعائیں یارب
دل کی صدائیں یارب

تٗو ہی رحیم ٹھہرا
تٗو ہی کریم ٹھہرا

سب کا ہے تٗو سہارا
سب نے تجھے پکارا
میں بھی ہوں تیرا بندہ
دم سے ہوں تیرے زندہ

مجھ کو بھی راحتیں دے
خوشیوں کی ساعتیں دے

بن کے میں چاند چمکوں
دنیا میں میں بھی دمکوں

بلبل کی طرح چہکوں
پھولوں کی طرح مہکوں

دے علم کا خزانہ
مٹھی میں ہو زمانہ

کرتا رہوں بھلائی
ہو شادماں خدائی

لب جو فراغؔ کھولے
شکر خدا ہی بولے
٭٭٭

ہمارا نبیؐ

ہمارا نبیؐ سب سے پیارا نبیؐ ہے
وہی جو خدا کا دلارا نبیؐ ہے

ہے ماں آمنہؓ کی وہ آنکھوں کا تارا
کہ دائی حلیمہ نے دل جس پہ وارا

جہاں میں وہ آیا جہالت مٹانے
سیہ قلب کو علم سے جگمگانے
ہمیں غفلتوں سے جگایا اسی نے
جئیں کس طرح ہم، بتایا اسی نے

نبیؐ ہے یقیناً وہ محسن ہمارا
اسی نے ہمارا مقدر سنوارا

ہمیں اس نبی نے بھروسہ دیا ہے
ہماری شفاعت کا وعدہ کیا ہے

کہا رب نے جب سے محمدؐ محمدؐ
لبوں پر ہے سب کے محمدؐ محمدؐ

نثار اس پہ جن و بشر بھی ہوئے ہیں
غلام اس کے شمس و قمر بھی ہوئے ہیں

کسی کو نہ دی جس نے سبقت کسی پر
پڑھیں ہم درود و سلام اس نبیؐ پر

فراغؔ اس نبیؐ کی ثنا کر رہا ہے
عدو کا ستم جس نے ہنس کر سہا ہے
٭٭٭

میری دادی

پیاری پیاری میری دادی
مجھ کو کہتی ہے شہزادی

میرے سو نخرے سہتی ہے
میری فکر اسے رہتی ہے

جو بھی مانگو، سو دیتی ہے
ایک نہیں ، وہ دو دیتی ہے
مجھے منا کر خوش ہوتی ہے
ورنہ غصے میں روتی ہے

مجھے کوئی جو مارے چٹ سے
ڈانٹ اسے دیتی ہے جھٹ سے

مجھ سے دور نہیں رہ سکتی
وہ یہ بات نہیں سہہ سکتی

کرم خدا کا ہے یہ بے شک
اس کی آنکھوں کی ہوں ٹھنڈک

امبر پر تارے ہیں جتنے
یاد اسے ہیں قصے اتنے

دل کی بات کہوں گی مل کے
نظم فراغؔ انکل کر دیں گے
٭٭٭

چڑیا خانہ

نجمی، فہمی، عظمیٰ رعنا
آؤ دیکھیں چڑیا خانہ

جن کے نام سنا کرتے ہو
آج انھیں نزدیک سے دیکھو

ایک سے ایک پرندے دیکھو
آدم خور درندے دیکھو

مور سروں پر تاج سجائے
ناچ رہے ہیں پر پھیلائے

بلبل دیکھو، توتا دیکھو
کوئل دیکھو، مینا دیکھو

خوش آواز پپیہا دیکھو
ہدہد اور گوریا دیکھو

بھونرا دیکھو، تتلی دیکھو
شیر کی خالہ بلی دیکھو

زیبرا، گھوڑا، ٹٹو، خچر
باز کبوتر، کوا، تیتر

وہ دیکھو خرگوش، گلہری
بارہ سنگھا اور وہ ہرنی

بن مانس اور بھالو بھی ہے
نیولا اور کنگارو بھی ہے

بندر کی نقالی دیکھو
پیٹ رہے ہیں تالی دیکھو

دو دو ہاتھی جھوم رہے ہیں
دور گدھے بھی گھوم رہے ہیں

شیروں کا غرانا دیکھو
تیندوے کا بل کھانا دیکھو

وہ دیکھو افریقی گینڈا
اور یہ ہندوستانی چیتا

پھن کاڑھے اک ناگن بھی ہے
لومڑی اک مکارن بھی ہے

بزدل گیدڑ، لکڑبھگا
کون بنے گا لیڈر اس کا

دلکش طائر آبی دیکھو
کیسی ہے مرغابی دیکھو

مچھلی کو لہراتے دیکھو
مینڈک کو ٹراتے دیکھو

ایک مگر مچھ جاگ رہا ہے
دیکھ کے کچھوا بھاگ رہا ہے

آج فراغؔ انکل نے دیکھا
کلکتے کا چڑیا خانہ
٭٭٭

سرکس آیا

اخباروں نے شور مچایا
سرکس آیا، سرکس آیا
پھر سرکس کی دھوم مچی ہے
شہرت اس کی خوب ہوئی ہے
گلیوں گلیوں شور ہے اس کا
ہر جانب پھر زور ہے اس کا
گھر گھر ہے سرکس کا چرچا
مچل پڑا ہے بچہ بچہ
آؤ بچو، سرکس دیکھیں
اب کے کتنا ہے رس دیکھیں
کون ہے کتنا چوکس اب کے
کون ہے کتنا بے بس اب کے
سوٹ پہن کر ہاتھی آئے
گھوڑے بن کر ساتھی آئے
ہرنی بھی سج دھج کے آئی
آ کر دولھن سی شرمائی
کار چلاتے چیتے دیکھو
سگنل دیتے توتے دیکھو
ڈانس گدھے دکھلاتے آئے
ٹٹو بینڈ بجاتے آئے
شیر پہ بکری جھپٹ رہی ہے
تختہ اس کا الٹ رہی ہے
چوہے نے بندوق چلائی
دیکھ کے بلی بھی گھبرائی
بندر کرکٹ کھیل رہے ہیں
ریچھ کی بیٹنگ جھیل رہے ہیں
جوکر کا میک اپ تو دیکھو
لطف بھری گپ شپ تو دیکھو
کیسے سب کو ہنسا رہے ہیں
کیا کیا کرتب دکھا رہے ہیں
جمپ لگاتے خوب یہ لڑکے
نہیں ذرا بھی موت سے ڈرتے
فن میں ہر لڑکی ہے ماہر
آگ سے گزری پیٹ کی خاطر
نئے نئے جب کرتب دیکھو
خوب بجاؤ تالی بچو
کھیل انوکھا ہے سرکس کا
کام نہیں یہ سب کے بس کا
ٹولی یہ فنکاروں کی ہے
داد فراغؔ انکل سے لی ہے
٭٭٭

گڑیا کی شادی

سنڈے کے دن ہم سب کھیلیں
لطف ذرا چھٹی کا لے لیں
ڈولی لاؤ، گھوڑا لاؤ
گڈا لاؤ، گڑیا لاؤ
ان دونوں کی کر دیں شادی
آ جائیں باراتی ہادیؔ
کچھ دعوت نامے چھپوا لو
کچھ مہمانوں کو بلوا لو
گڈے کا سہرا لے آؤ
گڑیئے کا گجرا لے آؤ
گڈے کا صافہ بھی لانا
گڑیئے کا لہنگا بھی لانا
ہلدی پیسے گی نذرانہؔ
مہندی پیسے گی فرزانہؔ
سارا گھر آنگن سجوا دو
در پر شہنائی بجوا دو
کچی بریانی پکوا لو
شاہی ٹکڑے بھی بنوا لو
شربت اور کافی بھی رکھنا
مصری اور ٹافی بھی رکھنا
گڈا گڑیا جب ہیں راضی
نجمیؔ بن جائے گا قاضی
دھوم دھام سے ہو گی شادی
یاد کرے گی کیا شہزادیؔ
ہندوستانی ساز بجیں گے
گیت فراغؔ انکل لکھ دیں گے
٭٭٭

گڑیا

گڑیا من کی سچی ہے
کتنی اچھی لڑکی ہے

سن کر چڑیوں کی چہکار
خود بستر سے اٹھتی ہے

کچھ کرنے سے پہلے وہ
نام اللہ کا لیتی ہے

اس کے بعد ہی اٹھ کر وہ
تھوڑی ورزش کرتی ہے

ورزش کر لینے کے بعد
کچھ کھانے کو بڑھتی ہے

اسکولی بس آتے ہی
تیزی سے چل پڑتی ہے

اردو ہو یا انگریزی
فرفر فرفر پڑھتی ہے

اور فراغؔ اس لڑکی سے
اک اک لڑکی جلتی ہے
٭٭٭

اچھا بچہ

نجمیؔ ہے اچھا بچہ
ہرگز نہیں ہے لڑتا

اچھی ہے اس کی عادت
کرتا نہیں شرارت

بنٹیؔ، بلال،ؔ ہادیؔ
اچھے ہیں اس کے ساتھی

رہتا ہے صاف ستھرا
بدلے ہے روز کپڑا

اسکول سے وہ آ کر
پڑھتا ہے جی لگا کر

چھٹی کے وقت اکثر
کھیلے ہے گھر کے اندر

اپنے پرائے سب سے
ملتا ہے وہ ادب سے

سب سے کرو بھلائی
ماں باپ نے سکھائی

ماں باپ کا بھرم وہ
رکھتا ہے ہر قدم وہ

ایسے فراغؔ بچے
لگتے ہیں سب کو اچھے
٭٭٭

گوریا

ننھی منی سی گوریا
ہلکی پھلکی سی گوریا

نرم ملائم پر ہیں اس کے
گھر ہے اور نہ در ہیں اس کے

روز چہکتی ہے آنگن میں
خوب پھدکتی ہے آنگن میں

ہاتھ نہیں وہ آ پاتی ہے
آہٹ پا کر اڑ جاتی ہے

سبز درختوں کی ٹہنی پر
جھولتی رہتی ہے وہ اکثر

صبح کو ذکر رب کرتی ہے
رب کا اپنے دم بھرتی ہے

آنگن آنگن جھنڈ بنا کر
دانے چگتی ہے وہ آ کر

ہر غم سے ہے دور یہ چڑیا
رہتی ہے مسرور یہ چڑیا

نظم فراغؔ انکل کی بچو
پڑھ کر ذہن نشیں تم کر لو
٭٭٭

چندا ماما

کہاں چھپے ہو چندا ماما
دور کرو اندھیارا ماما

چندا ماما کب آؤ گے
کب دھرتی کو چمکاؤ گے

دھرتی کے ہم ننھے تارے
کیسے چمکیں بنا تمھارے

ایک تمھارے آ جانے سے
اجیاروں کے چھا جانے سے

جھوم اٹھیں گے مل کر سب ہی
پریتمؔ، فیضیؔ، پونمؔ، جولیؔ

چندا ماما جب آؤ گے
سب کے دل پر چھا جاؤ گے

ہم تاروں کی چھاؤں میں رہ کر
ہو جائیں گے اور منور

دودھ جلیبی کھائیں گے ہم
گیت تمھارے گائیں گے ہم

بزم سجے گی رات گئے تک
دھوم مچے گی رات گئے تک

ساتھ فراغؔ انکل بھی ماما
خوب مچائیں گے ہنگامہ
٭٭٭

چلڈرنس ڈے

آج کا دن بچوں کا دن ہے
بچوں کی خوشیوں کا دن ہے

روشن ہوں بچوں کے چہرے
ان پر ہوں خوشیوں کے پہرے

تن پر کپڑے ہوں بھڑکے لیے
پاؤں میں جوتے ہوں چمکے لیے

ناچو، گاؤ، جشن مناؤ
کھیلو، کودو، موج اڑاؤ

عارفہؔ، مونیؔ، عرشیؔ، سنبلؔ
لہکو، چہکو، مثل بلبل

فیضؔ، شہیرؔ و نجمیؔ، غازیؔ
خوب رہے گی آتش بازی

آج فراغؔ ان کو مت ڈانٹو
سب بچوں میں ٹافی بانٹو
٭٭٭

ہم بھی سب کچھ کر سکتے ہیں

ہم بچے ہیں پڑھنے والے
درجہ درجہ بڑھنے والے
دھرتی کے ہم چاند ستارے
تیور ہیں کچھ اور ہمارے
کمپیوٹر پر ناز ہمیں ہے
علم کا حاصل ساز ہمیں ہے
دیکھ کرشمہ کمپیوٹر کا
علم ہمیں ہے دنیا بھر کا
سارے گن ہیں اپنے اندر
نہیں کسی سے ہم ہیں کمتر
مٹھی میں تقدیر ہے اپنی
خوابوں کی تعبیر ہے اپنی
ہم بھی افسر بن سکتے ہیں
قوم کے رہبر بن سکتے ہیں
خار پہ چلنا سیکھ گئے ہم
دھوپ میں جلنا سیکھ گئے ہم
پنکھ بنا بھی اڑ سکتے ہیں
ہیں لوہا، پر مڑ سکتے ہیں
صحرا صحرا پھول کھلا دیں
دریا دریا راہ بنا دیں
ہر کھائی کو بھر سکتے ہیں
ہم بھی سب کچھ کر سکتے ہیں
بھارت کی سنتان ہیں ہم سب
الفت کی پہچان ہیں ہم سب
وقت پڑے تو دیش کی خاطر
جان بھی اپنی کر دیں حاضر
ایک فراغؔ انکل ہیں اپنے
ہمیں دکھاتے ہیں جو سپنے
٭٭٭

کمپیوٹر

کمپیوٹر کا ہے یہ دَور
اب جینے کا بدلا طور
دفتر دفتر، گھر گھر آج
دیکھ لو کمپیوٹر کا راج
قدم قدم پر صبح و شام
کمپیوٹر ہی آئے کام
اس سے ہم کیوں ہوں محروم
جب کمپیوٹر کی ہے دھوم
دَور ہمارا ہے کچھ اور
کمپیوٹر سیکھو فی الفور
چیز بنی حیرت انگیز
اس کی میموری ہے تیز
حرف سبھی اور سب اعداد
کمپیوٹر رکھتا ہے یاد
علم و فن سے ہے آباد
اچھا خاصا ہے استاد
ہر بھاشا کر لو تحریر
اور بنا لو ہر تصویر
اس پر کر لو ہیڈ اور ٹیل
پھر کھیلو من چاہے کھیل
نئی چلائی اس نے ریت
اس پر بھی بجتے ہیں گیت
سیکھ کے کمپیوٹر بچو
اپنے خواب کو سچ کر لو
٭٭٭

گرمی آئی

لو، برساتی گرمی آئی
کیسی بے چینی پھیلائی

جاں لیوا ہے لو کا عالم
ہر جانب ہے ہو، کا عالم

گرمی سے پنچھی ہیں بے کل
انسانوں میں بھی ہے ہلچل

کھڑکی کھولو، پنکھے کھولو
کمروں کے دروازے کھولو

گھر کے فریزر چالو کر دو
ہر بوتل میں پانی بھر دو

لمکا، فنٹا، کوکا کولا
سارے شربت رکھو ٹھنڈا

برف جماؤ، دہی جماؤ
ٹھنڈی ٹھنڈی چیزیں کھاؤ

کچھ سوتی کپڑے سلواؤ
فیشن چھوڑو، راحت پاؤ

چھٹی کے دن آئیں گے اب
ہل اسٹیشن جائیں گے سب

شام فراغؔ آتے ہی نکلو
ورنہ گھر کے اندر بیٹھو
٭٭٭

برسات

رحمت بن کے آئے بادل
چاروں جانب چھائے بادل

پھر آیا برسات کا موسم
بج اٹھی بوندوں کی سرگم

سرگم سن کر جھوم اٹھا دل
خوشیاں پا کر آج کھلا دل

دور ہوئی گرمی کی شدت
آج ملی ہے سب کو راحت

رنگ برنگی چھتری نکلی
سڑکوں پر رنگولی نکلی

بارش کے باراتی دیکھو
پہنے ہیں برساتی دیکھو

ٹوٹ کے برسا ابر باراں
ناچ اٹھا ہے اک اک دہقاں

کھیتوں میں ہریالی ہو گی
فصلوں سے خوشحالی ہو گی

پانی سے رستہ ہے جل تھل
چند دنوں کی ہے یہ ہلچل

نکلو فراغؔ اب اپنے گھر سے
تم پر بھی کچھ پانی برسے
٭٭٭

سردی کا موسم

سردی کا موسم آیا ہے
ٹھنڈک سے تن کانپ رہا ہے

لوگ ہیں سارے سوئٹر پہنے
اور کانوں پر مفلر باندھے

ہر گھر میں سردی لے آئی
چادر، کمبل اور رضائی

بند سبھی گھر کے پنکھے ہیں
روم ہیٹر کے دن پلٹے ہیں

دھوپ سہانی لگتی ہے اب
اس سے راحت ملتی ہے اب

ڈھونڈ رہی ہے دنیا ساری
کلہ، پایا اور نہاری

کافی پینے کے دن آئے
اب یوں جینے کے دن آئے

اسکولوں میں چھٹی ہو گی
کھیلیں گے ، جب مرضی ہو گی

گرم فراغؔ اب موزے پہنو
دستانے بھی پہن کے نکلو
٭٭٭

شکر خدا کا

جاڑا آیا، جاڑا آیا
خوشیوں کا سندیسہ آیا

ہم سب گرمی سے پاگل تھے
لو، کی شدت سے گھائل تھے

آگ برستی تھی ہر جانب
ہم سب تھے راحت کے طالب

ہونٹوں پر تھا پیاس کا قبضہ
شربت سے تھا پانی مہنگا

آیا جب برسات کا موسم
اس نے رکھا لب پر مرہم

ٹوٹ کے ایسا برسا بادل
جس سے ہوا ہر رستہ جل تھل

پانی میں دل ڈوب گیا تھا
کیچڑ سے جی اوب گیا تھا

شکر خدا کا جاڑا آیا
کیچڑ سے چھٹکارا پایا

روز نہاری کھائیں گے ہم
پھر اسکول کو جائیں گے ہم

اونی کپڑے تن پہ سجیں گے
چہرے حرارت سے دمکیں گے

سوٹ فراغؔ اب سلوانا ہے
سج کے محفل میں جانا ہے
٭٭٭

ابر رحمت

کالی گھٹا ہے چھائی
مسرور ہے خدائی

برسے گا جم کے بادل
ہو گی زمین جل تھل

صد شکر ابر رحمت!
سب کو ملے گی راحت

اب دور ہو گی خشکی
نکھرے گی پھر سے دھرتی

جس سطح سے ہے اترا
اس پر چڑھے گا دریا

اللہ کی شان دیکھو
خوش ہیں کسان دیکھو

کھیتوں میں ہل چلیں گے
پھر سب ہی پھل چکھیں گے

لہکیں گے پیڑ پودے
دمکیں گے بیل بوٹے

کیا خوب ہیں فضائیں
چلنے لگیں ہوائیں

پنچھی نے پر سمیٹے
لوٹے گھر اپنے اپنے

آخر بفضل مولا
بادل فضا میں گرجا

بجلی لگی چمکنے
بوندیں لگیں ٹپکنے

آؤ فراغؔ آؤ
ملہار تم بھی گاؤ
٭٭٭

اسکول ٹیچر

اسکول کے ہمارے
استاد پیارے پیارے
ہم کو پڑھا رہے ہیں
انساں بنا رہے ہیں
کیا کیا نہیں سکھایا
یوں حوصلہ بڑھایا
بات اَن سنی بتائی
دنیا نئی دکھائی
کی دور ہر برائی
تہذیب بھی سکھائی
کرنا نہیں لڑائی
ہوتی ہے جگ ہنسائی
ہوتے ہیں باپ سایہ
ان سے یہ درس پایا
تعلیم کا اثر ہے
اونچا ہمارا سر ہے
ان کا جو یہ عمل ہے
احسان بے بدل ہے
ان کی کریں گے عزت
پاتے رہیں گے شفقت
خوبی فراغؔ نے بھی
استاد کی بیاں کی
٭٭٭

آخر ایسا کیوں ہے پاپا

آخر ایسا کیوں ہے پاپا
میرے شہر کلکتہ میں
مرغی نہیں مرغی ہٹے میں
کولھو نہیں کولھو ٹولے میں
مالا نہیں مالا پاڑے میں
بیلا نہیں بلیا گھاٹے میں
آخر ایسا کیوں ہے پاپا
میرے شہر کلکتہ میں

چونا گلی میں چونا کب ہے
شیشہ گلی میں شیشہ کب ہے
چھاتا گلی میں چھاتا کب ہے
بکسا گلی میں بکسا کب ہے
آخر ایسا کیوں ہے پاپا
میرے شہر کلکتہ میں

بھشتی نہیں بھشتی پاڑے میں
موچی نہیں موچی پاڑے میں
حاجی نہیں حاجی پاڑے میں
قاضی نہیں قاضی پاڑے میں
آخر ایسا کیوں ہے پاپا
میرے شہر کلکتہ میں

تال نہیں ہے تال تلے میں
نیم نہیں ہے نیم تلے میں
جھاؤ نہیں ہے جھاؤ تلے میں
بانس نہیں ہے بانس تلے میں
آخر ایسا کیوں ہے پاپا
میرے شہر کلکتہ میں

حیرت سے جب میں نے پوچھا
بس اتنا ہی بولے پاپا
آج نہیں ہے ، لیکن بیٹا
برسوں پہلے ہوتا ہو گا
٭٭٭

سب کا ہو ایک نعرہ

دنیا پہ یہ ہے روشن
ہر قوم کا ہے مسکن
سب کے لیے یہ گلشن
جیسے ہو ماں کا دامن
ہر دیش سے ہے نیارا
ہندوستاں ہمارا
ہندو کا ہے دلارا
مسلم کو بھی ہے پیارا
اس دیش کو ہمیشہ
سب نے لہو سے سینچا
ہر آنکھ کا ہے تارا
ہندوستاں ہمارا
نانکؔ، معینؔ چشتیؔ
خسروؔ، کبیرؔ، تلسیؔ
اقبالؔ، میرؔ، فانیؔ
آزادؔ، نہروؔ، گاندھیؔ
سب کا بنا سہارا
ہندوستاں ہمارا
سندھی ہوں یا مراٹھی
بنگالی ہوں یا اسمی
اڑیا ہوں یا بہاری
یا پھر ہوں جھاڑ کھنڈی
سب کا ہو ایک نعرہ
ہندوستاں ہمارا
٭٭٭

ایک رہیں ہم

ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی
آدم کی اولاد ہیں بھائی

کیوں آپس میں کریں لڑائی
سب ہیں اک دوجے کے بھائی

عرفیؔ، بیدیؔ، جانیؔ، کاشیؔ
ہم سب ہیں بھارت کے باشی

جہاں رہیں ، پر ایک رہیں ہم
خوب پڑھیں اور نیک بنیں ہم

الگ الگ ہے سب کی بھاشا
ایک مگر ہے اپنی آشا

گلشن سا ہو وطن ہمارا
ہرا بھرا ہو چمن ہمارا

کوئی انوکھا کام کریں ہم
دنیا بھر میں نام کریں ہم

دشمن گھر گھر آگ لگائے
اس سے پہلے ہمیں مٹائے

پہن کے اپنے دیش کی وردی
جڑ سے مٹا دیں دہشت گردی

بات فراغؔ انکل کی مانو
اپنی طاقت کو پہچانو
٭٭٭

اردو

اردو زباں ہماری
ہے جان و دل سے پیاری

یہ مادری زباں ہے
رگ رگ میں جو رواں ہے

جب سے زبان کھولی
اردو ہے اپنی بولی
بچپن کی ہے یہ ساتھی
کی اس نے ذہن سازی

شیریں زباں ہے اردو
چرچا ہے اس کا ہر سوٗ

اردو میں نغمگی ہے
کیا اس میں دل کشی ہے

اردو جو کوئی بولے
کانوں میں رس یہ گھولے

اردو میں پڑھنا لکھنا
بات اس زباں میں کرنا

اردو کو زندہ رکھنا
ہم پر ہے فرض اپنا

لب جو فراغؔ کھولو
اردو میں تم بھی بولو
٭٭٭

کتاب میلہ

دیکھو کتاب میلہ
کیسا ہے ریلا ٹھیلا
شوق کتاب دیکھو
ہے لاجواب دیکھو
اس شوق میں خدائی
زحمت اٹھانے آئی
بوڑھے ، جوان، بچے
سب کھا رہے ہیں دھکے
یہ سارے نر یہ ناری
ہیں بے مثال قاری
اسٹال خوب صورت
ہے وقت کی ضرورت
میلے میں آ کے جانا
ہے علم کا خزانہ
کیسی ہیں سب کتابیں
اچھی ہیں سب کتابیں
قصے کہانیاں ہیں
راجے ہیں ، رانیاں ہیں
علمی کتاب بھی ہے
فنی کتاب بھی ہے
سستی سے سستی دیکھو
مہنگی سے مہنگی دیکھو
جیسی کتاب چاہو
میلے میں آ کے لے لو
بیٹھا کہیں مصور
کاغذ پہ کرتا کھر کھر
فیض کتب اٹھاتا
ہے آج بچہ بچہ
تم بھی فراغؔ آؤ
بچوں کو ساتھ لاؤ
٭٭٭

ہولی

کیا خوب آئی ہولی
مستوں کی نکلی ٹولی
کیا خوش گوار دن ہے
اک پر بہار دن ہے
اڑتا گلال دیکھو
چہرے ہیں لال، دیکھو
پچکاریوں کے دھارے
خوش رنگ ہیں نظارے
جذبوں کی وہ خوشی ہے
رنگوں میں جو چھپی ہے
رنگوں سے تر بدن ہے
رنگین پیرہن ہے
سب ناچ گا رہے ہیں
اودھم مچا رہے ہیں
گلیوں میں گھومتے ہیں
مستی میں جھومتے ہیں
سب ٹوٹ کر ہیں ملتے
یوں مل کے سب ہیں کھلتے
دوری نہ فاصلہ ہے
ہولی میں سب روا ہے
نیلا، ہرا، گلابی
رنگ آج اڑاتی بھابی
راہلؔ، کشورؔ، گوپیؔ
کھیلیں گے ہم سے ہولی
گھر میں بنائے سب نے
پکوان میٹھے میٹھے
تہوار ہے نرالا
الفت میں سب کو ڈھالا
ہولی نے آ کے پھر دی
تعلیم ایکتا کی
رت کیا فراغؔ چھائی
گوکل کی یاد آئی
٭٭٭

تاج محل

تاج محل سا کون محل
اس کا کوئی نہیں بدل

بات سبھی نے مانی ہے
تاج محل لاثانی ہے

سب کے دلوں پر راج ہوا
عالم کا سرتاج ہوا
سات عجوبوں میں پہلا
اس نے پایا ہے درجہ

جیسے ہی اعزاز ملا
سارا بھارت جھوم اٹھا

شاہجہاں کو یاد کرو
روح کو ان کی شاد کرو

تاج پہ نازاں سب ہیں فراغؔ
کتنے شاداں سب ہیں فراغؔ
٭٭٭

کلکتہ

ہر سیلانی یہ کہتا ہے
شہر انوکھا کلکتہ ہے

بھارت کا ہر صوبے والا
اس کے دامن میں بستا ہے

اس کے فٹ پاتھوں پر ہر دم
لوگوں کا ریلا چلتا ہے

لمبی چوڑی سب سڑکوں پر
کاروں کا دریا بہتا ہے

نئی ٹراموں کا اب چلنا
آنکھوں کو اچھا لگتا ہے

دو دو انساں ہیں رکشے پر
بار یہ اک انساں سہتا ہے

ایک ہے میٹرو ریلوے جس سے
وقت مسافر کا بچتا ہے

درگا پوجا میں کلکتہ
جگمگ جگمگ کر اٹھتا ہے

’’روسو گلا‘‘ ’’مشٹی دوئی‘‘
شان نرالی ہی رکھتا ہے

مچھلی سے بنگالی بھائی
مہمانوں کو خوش کرتا ہے

جوش بھرا یہ شہر ہمیشہ
اک پرچم تھامے رہتا ہے

دیکھ فراغؔ اپنے شعروں میں
اب کلکتہ بھی دکھتا ہے
٭٭٭

سورج

سورج نکل رہا ہے
منظر بدل رہا ہے
ساگر میں کل سما کے
نکلا ہے پھر نہا کے
چھٹنے لگا اندھیرا
اگنے لگا سویرا
کیا صبح کسمسائی
پھر کھل اٹھی خدائی
سورج جہاں میں تنہا
پھیلاتا ہے اجالا
دنیا کو روشنی دی
پودوں کو زندگی دی
کہتا رہا زمانہ
صدیوں سے یہ فسانہ
پیشانیِ فلک کا
سورج چمکتا ٹیکہ
سورج کو جب قریں سے
خود دیکھا آدمی نے
تب وہ یقیں سے بولا
اک آگ کا ہے گولہ
مشرق سے چل پڑا ہے
مغرب کو جا رہا ہے
پہیا بنا رواں ہے
ہمت مگر جواں ہے
روکے کہاں رکے گا
چلتا ہی وہ رہے گا
جب شام کی پہاڑی
الٹے گی دن کی گاڑی
سورج بھی جا چھپے گا
پردے ہی میں رہے گا
بدلیں گے پھر نظارے
چمکیں گے چاند تارے
٭٭٭

آمد بہار

چمن میں عہد بہار آیا
کلی کلی پر نکھار آیا

چمن میں میلہ ہے خوشبوؤں کا
ہواؤں میں اشتہار آیا

چمن کو چلئے کہ پھر چمن سے
پیام جشن بہار آیا

سنا ہے سیر چمن کو اب کے
ہر ایک الفت شعار آیا

کھلا جو بند قبائے گل تو
گلوں پہ بھونروں کو پیار آیا

گلوں کو دیکھا جو مسکراتے
نگاہ و دل کو قرار آیا

ترانۂ طائران گلشن
سنا تو سب کو خمار آیا

چمن میں ٹھنڈی ہَوا کا جھونکا
جب آیا بے اختیار آیا

گلوں کے پہلوئے دلنشیں میں
فراغؔ اک شب گزار آیا
٭٭٭

قلم

سمجھتے ہیں جو قدر و قیمت قلم کی
وہی لوگ کرتے ہیں عزت قلم کی

قلم کی بدولت ملی سب کو عزت
مسلم ہے دنیا میں عظمت قلم کی

زمانے کے ہمراہ چلنا اگر ہے
تو پھر لازمی ہے ضرورت قلم کی

جہالت کے باعث جو ہوتے ہیں رسوا
نہیں ان کو معلوم قیمت قلم کی

کہاں بادشاہی کسی کی رہی ہے
ازل سے مگر ہے حکومت قلم کی

امیر ان کے جیسا نہیں اس جہاں میں
خدا نے جنھیں دی ہے دولت قلم کی

کوئی کیا جھکائے گا اہل قلم کو
کہ ظاہر ہے دنیا پہ طاقت قلم کی

صداقت سے ہرگز نہ باز آئے گا یہ
یہی ہے جہاں میں عبادت قلم کی

جو اہل قلم ہیں طرف دار حق کے
وہ کرتے نہیں ہیں تجارت قلم کی

اٹھا کر پڑھو میرؔ و غالبؔ کے دیواں
اگر دیکھنا ہے مہارت قلم کی

فراغؔ، اپنی نسلوں سے کہہ دو یہ کھل کر
کہ سب شہرتیں ہیں کرامت قلم کی
٭٭٭

ترانۂ طلبہ

اک درس گاہ اعلیٰ ہے آستاں ہمارا
ہم اس کے چاند تارے ، یہ آسماں ہمارا

علم و ہنر کے لعل و گوہر لٹا رہی ہے
دنیا میں سر اٹھا کر چلنا سکھا رہی ہے
سوئے ہوئے ہمارے احساس کو جگا کر
معمار ملک و ملت ہم کو بنا رہی ہے
اک درس گاہ اعلیٰ ہے آستاں ہمارا
ہم اس کے چاند تارے ، یہ آسماں ہمارا

ماں کی طرح ہمیں بھی بڑھ کر سنبھالا اس نے
دنیائے بے بسی سے ہم کو نکالا اس نے
تاریک ذہن و دل تھے ، آئے تھے جب یہاں ہم
علم و ہنر سے ہم کو بخشا اجالا اس نے
اک درس گاہ اعلیٰ ہے آستاں ہمارا
ہم اس کے چاند تارے ، یہ آسماں ہمارا

کچھ جگمگاتے تارے ، کچھ ماہتاب نکلے
جن میں تھی ضو زیادہ وہ آفتاب نکلے
اس انجمن میں آئے ذروں کی شکل و صورت
نکلے مگر یہاں سے تو لاجواب نکلے
اک درس گاہ اعلیٰ ہے آستاں ہمارا
ہم اس کے چاند تارے ، یہ آسماں ہمارا

ڈرنا فراغؔ اگر ہے اللہ سے ڈریں گے
اسلاف کی ہمیشہ ہم پیروی کریں گے
علم و ہنر کی شمعیں کرتے رہیں گے روشن
ظلمت بھرے دلوں میں ہم روشنی بھریں گے
اک درس گاہ اعلیٰ ہے آستاں ہمارا
ہم اس کے چاند تارے ، یہ آسماں ہمارا
٭٭٭

غزل

دل کی صفائی کی ہے
اپنی بھلائی کی ہے

کیوں فیل ہوتے یارو،
ہم نے پڑھائی کی ہے

جب ہم نے کی شرارت
ماں نے پٹائی کی ہے

یاروں نے پیٹھ پیچھے
میری برائی کی ہے

ہر چیز دے دوں اس کو
ضد میرے بھائی کی ہے

ٹیچر نے دھوبی جیسی
میری دھلائی کی ہے

حق کے لیے ہمیشہ
ہم نے لڑائی کی ہے

روٹی کے بعد چاہت
قلفی ملائی کی ہے

کچھ بات ہے کہ سب نے
میری بڑائی کی ہے

ہم نے فراغؔ کیسی
نغمہ سرائی کی ہے
٭٭٭

قطعات

کس بات کا ہے رونا
اب چین سے ہے سونا
اب آٹھویں تلک تو
سب کو ہے پاس ہونا

صد حیف، ٹیچروں کے
اطوار ظالمانہ
اسکول بھی خدایا
لگتا ہے قید خانہ

ہم جو وزیر ہوتے
صورت یہ درسی ہوتی
اسکول کھلتے اک دن
6 دن کی چھٹی ہوتی

ہم ہیں شریر بچے
دل کے مگر ہیں سچے
کیا انتظار کرنا
پھل توڑتے ہیں کچے

مانا کہ ہم ہیں بچے
دھن کے مگر ہیں پکے
میدان میں اتر کر
سب کے چھڑا دیں چھکے

’سلمان، کے اسیرو
سمجھو نہ ہم کو زیرو
وہ ایکٹنگ کے عادی
ہم اصل میں ہیں ہیرو

ہے وقت کا تقاضا
مضبوط ہے ارادہ
سر کر کے ہم رہیں گے
چیلنج کا ہمالہ

ہو جائیں گے بڑے تو
سالار ہم بنیں گے
اپنے وطن کی خاطر
تلوار ہم بنیں گے

ہر حال میں ہے اپنی
کشتی کو خود ہی کھینا
سیکھا نہیں ہے ہم نے
احساں کسی کا لینا

کیوں صبح و شام روتے
ہم سب سکوں سے سوتے
آنگن میں جو سبھی کے
پیسوں کے پیڑ ہوتے

رونے ہنسانے والے
سو ناز اٹھانے والے
ماں باپ ہیں ہمارے
ہم کو منانے والے

سکھ جس نے اپنا سارا
تا عمر ہم پہ وارا
ہم کو بنا خدایا،
اس باپ کا سہارا

میری سبھی دعائیں
مقبول ہوں خدایا
تا عمر میرے سر پر
ماں باپ کا ہو سایہ

جو پاس ہو گئے ہیں
اللہ کے کرم سے
ماں باپ اب ہمارے
خوش ہو رہے ہیں ہم سے

اوصاف کے ہمارے
چرچے کیے ہیں سب نے
خوش ہو کے آج ہم کو
تحفے دیئے ہیں سب نے

بچوں پہ ہو عنایت
بچپن رہے سلامت
پڑھنے کے بعد یارب،
کرتے رہیں شرارت
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں