بچپن میں بارش کی سب سے بری بات یہ لگتی تھی کہ ساری رات زور وشور سے جاری رہنے والی بارش سکول جانے کے وقت رک جایا کرتی تھی اور نہ چاہتے ہوئے بھی سکول جانا پڑ جاتا تھا. میرے بچپن کی کچھ حسین یادیں ایسی ہی بارشوں سے وابستہ ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ والدہ صاحبہ نے مجھے تحفہ میں فانیکس کی گئیر والی سائیکل لے کر دی تو میرے پاؤں زمیں پر ہی نہیں لگتے تھے۔
جیسے کچھ لوگوں کے بس دو ہی شوق ہوتے ہیں، وڈی گڈی تے سوہنے لوک، بالکل ایسے ہی یہ سائیکل اس وقت میری وڈی گڈی ہوا کرتی تھی، جبکہ سوہنے لوگ مجھے شروع سے ہی پسند نہیں رہے لہذا سوہنے لوگوں کا شوق پالنے کے بجائے میں نے مچھلیاں پکڑنے کا شوق پالا.. یہ اس وقت کی بات ہے جب گھر سے دور جانے کی اجازت نہیں ملتی تھی۔
بھلا ہو میونسیپل کمیٹی والوں کا جن کی مہربانی سے اس وقت بھی گلیاں کچھ وقت کی بارش کے بعد ہی تالاب کا منظر پیش کرنے لگتی تھیں اور بارش کے کافی دن بعد تک بھی یہ تالاب بھرے رہنے کی وجہ سے سونے پر سہاگا یہ ہوتا کہ ان میں چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کی افزائش شروع ہو جاتی اور مجھے اپنا شوق پورا کرنے کا موقع مل جاتا… اس وقت میرا شوق پورا کرنے میں میرا لنگوٹیا دوست (جو کہ اب سیریل کلنگ یعنی مرغیاں حلال کرنے کے پیشے سے وابستہ ہے) بھرپور ساتھ دیتا اور ہم کچھ ہی دیر کی محنت کے بعد لنگوٹیے کے زورِبازو پر کافی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں پکڑنے میں کامیاب ہو جاتے جو برابر کا حصہ کرنے کے بعد پالنے کیلئے تمام کی تمام میرے حصے میں آجایا کرتین… (اس کام کیلئے ہماری پسندیدہ جگہ ریلوے اسٹیشن کے سامنے والے تالاب ہوا کرتے تھے).
مچھلیوں کی خوشی کچھ دن میں دکھ کی کیفیت میں بدل جاتی جب یہ مچھلیاں مینڈک کا روپ اختیار کر لیتیں. اس وقت ذہن یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ مچھلیاں مینڈک بن گئیں یا مینڈک ہماری مچھلیوں کو کھا گئے.. خیر گھر والوں کے کہنے پر ان راک شخصوں(مینڈکوں) کو آزادی دینا پڑتی اور کچھ دن دکھ کے ساتھ گزرتے۔
برسات کے دنوں میں اپنی عزیز ازجان وڈی گڈی یعنی سائیکل لے کر میں محنت کے ساتھ وہ گلیاں ڈھونڈتا جہاں گھٹنوں تک پانی ہوتا اور بارش میں نہانا معمول تھا. وقت کے ساتھ تبدیلی آئی اور سائیکل میرے گھر کے میوزیم کا حصہ بن گئی جہاں آج بھی وہ محفوظ حالت میں ہے اور میرے لئے تسکیں کا باعث ہے. اس کے ساتھ یہ بھی سمجھ آگئی کہ جن کو ہم مچھلیاں سمجھا کرتے تھے وہ دراصل مینڈک ہی ہوتے تھے جو افزائش کے عمل کے دوران مچھلیوں یا لاروا کی صورت میں پانی کے اندر تیرتے رہتے تھے۔
بڑے بھائی کا شکریہ جنہوں نے گریجوایشن مکمل ہونے پر اچھی کمپنی کی عمدہ بائیک لے دی اور سائیکل سے موٹر والی سائیکل پر ہماری پروموشن ہو گئی۔ آج بارش میں نہاتے ہوئے بچپن کی خواہش نے زور مارا اور لمبے عرصے کے بعد شہر کی پانی والی گلیاں کھوجنے کا موقع ملا لیکن اس کے ساتھ ہی اندازہ ہوا کہ جو مزا سائیکل پر مشقت کرنے اور گھومنے کا تھا، وہ موٹر والی سائیکل کا بالکل نہیں۔ اوریہ بھی احساس ہوا کہ شاید ہم وہ آخری نسل ہیں جنہوں نے برسات کو بھی اچھے طریقے سے انجوائے کیا… بچپن کی اسی محبت کو جگجیت سنگھ نے اس خوبصورت انداز میں گایا کہ سننے پر دوبارہ بچپن میں چلے جانے کو دل کرتا ہے۔
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لےلو
بھلے چھیں لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو وہ بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی