358

آگ لگنے کے حادثات اور روک تھام۔

آگ میں جل کر مرنے کا صرف  تصور ہی انتہائی ہولناک ہے لیکن جس پر یہ گذرتی ہے اس کا کیا حال ہوتا ہوگا اور پھر اس کے پیاروں پر کیا گذرتی ہوگی۔ پاکستان میں آئے روز آگ لگنے کے واقعات ہوتے رہتے  ہیں جن سے قیمتی جانوں کے ساتھ املاک کا بھی بہت نقصان ہوتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل کراچی کے ہوٹل میں آگ لگنے سے کئی لوگ اپنی جان سے گئے۔ اسی طرح کراچی کے ہی ایک کپڑے بنانے والے کارخانے، لاہور میں ایل ڈے اے پلازا، ایک نجی کاروباری ادارے کے دفتر اور ملک کے کئی شہروں میں آتش زدگی سے انسانی جانوں کے ضیائع اور مالی نقصان کی خبریں گردش کرتی ہیں۔ گڈانی میں جہاز توڑنے کے مقام پر تین مرتبہ آگ لگنے سے کئی انسان لقمہ اجل بنے  لیکن ان سب  ہولناک واقعات کے باوجود کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کئے گئے  تاکہ مستقبل میں ان کا سد باب ہوسکے۔ کیا زندہ انسان آگ میں جھلس کراپنی جانیں دیتے رہیں گے۔ کیا ارباب اختیار اسے کوئی اہمیت نہیں دیں گے۔
 
1998 میں سویڈن کے دوسرے بڑے شہر گوتھن برگ میں آتش زدگی کا ایک ایسا ہی واقعہ پیش  آیا جس میں 63 افراد جاں بحق ہوئے۔ حکومت نے مستقبل میں ایسے  واقعات سے بچنے کے لئے منصوبہ بندی اور اہم اقدامات کئے  جس کے نتیجہ میں اب تک ویسا کوئی اور واقعہ رونما نہیں ہوا۔ لندن میں 1666میں آگ لگنے سے ہونے والے نقصانات کے بعد آگ بجھانے والی گاڑیاں تیار کی گئیں۔ تمام یورپی ممالک میں ملکی سطح پر ایک اتھارٹی قائم ہے جو بلدیاتی سطح پر آگ بجھانے کے ادروں کی رہنمائی کرتی ہے۔ زندہ اقوام اس طرح کے اقدامات کرتی ہیں۔سویڈن میں وزارت دفاع کے ماتحت ملکی سطح پر ایک اتھارٹی قائم ہے جو ملک بھر میں قائم آگ بجھانے کے ادروں کی سرپرستی اور رہنمائی کرتی ہے۔ ملک کے تمام تعلیمی اداروں، دفاتر، کارخانوں، نجی اداروں ، ہوٹلوں غرض تمام اداروں کے اہل کاروں کو آگ لگنے سے بچاؤ اور آتش زدگی کی صورت میں آگ بجھانے کی معلومات اور تربیت دی جاتی ہے۔ یہ تربیت تدریسی اور عملی نوعیت کی ہوتی ہے اور تین گھنٹوں کی لازمی تربیت  ہر چارسال بعد دوبارہ لینا ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہر ادارے میں ملازمین میں سے ایک شخص آگ سے بچاؤ اور اس سے متعلقہ امور کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ تمام دفاتر، ہوٹلوں ، تعلیمی اور دیگر اداروں میں گاہے بگاہے آگ لگنے  کی صورت میں ہنگامی صورت حال اور بچاؤ کی مشقیں دہرائی جاتی ہیں۔ یہ مشقیں نرسری سکول کے بچوں کو بھی کروائی جاتی ہیں۔ سویڈن میں کوئی گھر یا دفتر ایسا نہیں جہاں فائر آلارم نہ نصب  ہو۔ حکومت، نجی شعبہ اور عوام سب مل کر حفاظت اورآگہی مہم کا حصہ ہیں اور یہی صورت پاکستان میں بھی ہونی چاہیے  تاکہ انسانی جانیں آگ میں نہ جلیں۔

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 18.0px Times; -webkit-text-stroke: #000000; min-height: 23.0px}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 18.0px Times; color: #ff2500; -webkit-text-stroke: #ff2500}
p.p3 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 18.0px Times; -webkit-text-stroke: #000000}
span.s1 {font-kerning: none}
span.s2 {font-kerning: none; color: #000000; -webkit-text-stroke: 0px #000000}

تباہی پھیلانے والی آگ کولگنے کے بعد بجھانے کی بجائے اس سے بچاؤ زیادہ اہم ہے اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ ایسی آگ لگنے  ہی نہ پائے، کیوں کہ جب ایک بار آگ لگ جاتی ہے تو پھر بچاؤ فوری اور سرعت سے کرنا ہوتا ہے اور ایک ایک لمحہ بہت اہم ہوتا ہے۔ اگر کسی کمرے میں صوفے پر موم بتی گر جائے یا آگ لگ جائے تو صرف  ایک منٹ کے اندر آگ بجھا لیں تو ٹھیک ہے ورنہ بہت مشکل ہوجاتاہے اور صرف  دو منٹ  بعد اتنی زیادہ آگ بھڑک جاتی ہے کہ صرف  فائر بریگیڈ ہی وہ بجھا سکتا ہے۔ آگ لگنے  کی صورت  میں جتنے  دروازے بند کرنا ممکن ہوں، بند کردیں تاکہ آکسیجن کی فراہمی کم ہو اور آگ نہ لگے۔
 جلنے کے عمل کے لئے تین  چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، جلنے  والی چیز، آکسیجن اور درجہ حرارت۔ آگ لگنے کے عمل سے جو دھواں پیدا ہوتا ہے وہ جان لیوا ہوتا ہے۔ اس دھویں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، کابن مانو آکسائیڈ اور ہایڈروجن سائی نائیڈ انسانی جان کے ضیائع کا باعث ہوتے ہیں۔ سب سے خطرناک ہائیڈروجن سائی نائیڈ ہے جو صرف  تین منٹ  میں ایک جان دار کو موت کے منہ میں دھکیل سکتی ہے۔ جس عمارت میں آگ لگ جائے اس سے نکلنے کے لئے رینگتے ہوئے باہر جانا چاہیے اورنظر آنے والے دھویں کے نیچے خطرناک گیسوں کی تہہ ہوتی ہے جو بظاہر دیکھائی نہیں دیتی اس سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔ حکومت کو سنجیدگی سے اس مسئلہ کو لیتے ہوئے ملک بھر میں آگ لگنے کے واقعات سے بچاؤ کی حکمت عملی اپنانی چاہیے اور اس کے ساتھ عوامی آگاہی مہم بھی بہت ضروری ہے۔ سرکاری اور نجی ادراوں کو اپنے  ملازمین کی سلامتی کو محفوظ بنانا اشد ضروری ہے۔
 ہر ادارے میں آگ لگنے سے بچاؤ کی معلومات اور تفصیلات ضروری ہیں۔ آگ بجھانے والے آلات کی فراہمی یقینی بنائی جائے ۔ گھروں اور دفاتر میں فائر آلارم لگائے جانے چاہیں تاکہ بروقت علم ہوسکے۔ تعلیمی اداروں میں اس کی عملی مشقیں کروانا لازمی قرار دی جائیں۔ جب تک حکومت اور عوام اسے سنجیدگی سے نہیں لیں گے اور احساس نہیں کریں انسانی جانیں اور املاک نذر آتش  ہوتی رہیں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں