Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
252

آئین اور قانون کی بالادستی۔

انسانی دماغ میں مختلف قسم کے ’’مراکز‘‘ ہوتے ہیں جو مختلف قسم کے جذبات کو ’’ہینڈل‘‘ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ ’’ڈیل‘‘ کرتے ہیں، انہیں ’’ڈائریکٹ‘‘ کرتے ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ ان کی ’’مینجمنٹ‘‘ کرتے ہیں مثلاً ایسے ہی ایک مرکز کا تعلق ریزن، لاجک، ریشنیل وغیرہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ جن قوموں، قبیلوں، افراد کا یہ مرکز مضبوط اور سرگرم ہوتاہے وہ سائنٹفک اور منطقی انداز میں سوچتے ہیں۔

ان لوگوں کے سامنے خرافات، یاوہ گوئی، بے تکے پن کی کوئی وقعت و حیثیت نہیں ہوتی۔ ان کے دماغوں میں موجود منطق کی چھلنی صحیح غلط کو چھانٹ کر علیحدہ کردیتی ہے۔ اک اور دماغی مرکز کا تعلق سو فیصدجذبات کے ساتھ ہوتا ہے۔ خالی خولی جذبات کے علاوہ پلے کچھ نہیں ہوتا۔ بولتے یا سنتے وقت دلیل نہیں صرف جذبات کی کسوٹی سے کام لیا جاتا ہے جس کا انجام صاف ظاہرہے۔ دلچسپ بات یہ کہ جب دلیل، منطق، حقائق والا سینٹر کام کرنا چھوڑ دے تو بتدریج اس کی موت واقع ہوجاتی ہے اور پھر چند نسلوں کےبعد اس کا’’ایکٹوی ویٹ‘‘ ہونا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے جس کے نتیجہ میں ایسے ہجوم جنم لیتے ہیں جن کی زندگیوں میں عقل، دلیل، لاجک، ریزن وغیرہ پر سو فیصد جذبات کا غلبہ ہوتا ہے۔ انہیں خود اپنے ننگے چٹے تضادات بھی دکھائی نہیں دیتے۔ 
اس کی ایک سادہ، تازہ، معصومانہ مثال عائشہ گلالئی کا یہ بیان ہے کہ ’’جب تک میں PTI میں تھی تو بہت اچھی تھی۔ PTI کو چھوڑتے ہی بہت بری کیسے ہوگئی؟‘‘خاتون کی بات بہت اچھی ہے لیکن کیا اس کا اطلاق خود ان کی اپنی ذات پر نہیں ہوتا؟ کیا یہی دلیل خودان پر بھی اپلائی نہیں ہونی چاہئے کہ جب تک وہ خود PTI میں تھیں تو یہ پارٹی اور اس کا سربراہ دونوں ہی بہت اچھے تھے ورنہ ایک روز پہلے اسٹیج پر جلوہ افروز نہ ہوتی، پارٹی چھوڑتے ہی سب کچھ غلط کیسے ہوگیا؟ 
میں عائشہ کےکیس کی بات نہیں کررہا کہ وہ صحیح ہے یا غلط، میں تو اپنے عمومی رویوں کی بات کر رہا ہوں جن میں لاجک، ریزن، دلیل نام کی کسی شے کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ لیکن ایک بیچاری گلالئی کیا، یہاں توتین بار وزیراعظم رہ چکا شخص بھی بات کرنے سے پہلے اس پر سوچنے اوراسے تولنے پر تیار نہیں۔ ذرا اس بودے، بے تکے، بے سرے، بے معنی جملے پر غور کریں ’’مناسب نہیں کروڑوں لوگ وزیراعظم کو منتخب کریں اور کچھ لوگ اسے فارغ کردیں‘‘ مطلب یہ کہ ہزاروں سالوں پرمحیط انسانی تجربوں کانچوڑ دنیا بھر کی عدالتیں توڑ مروڑ کر کسی فرنس میں پھینک دی جائیں۔ امریکہ سے اسرائیل اور جاپان تک کسی سربراہ کا مواخذہ ہو تو وہ کہے میں تو بڑے ووٹ لے کر آیا ہوں، دو چار دس بندے میرے خلاف فیصلہ کیسے دے سکتے ہیں؟ یعنی پوری دنیا کا عدالتی نظام لپیٹ دیا جائے یا کم از کم ووٹ لے کر آنے والوں کو ہر قسم کے قانون سے ماورا قرار دے دیا جائے۔ 
سبحان اللہ۔ تیسری بار منتخب منطق کی مسخ شدگی پر صدقے جائوں، سونے پہ سہاگہ ہے یہ عوام کی عدالت جس کی ڈاکٹر مجاہد منصوری نے دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں اور کسی اضافے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔ افسوس اس کا نہیں کہ بات بہت سطحی، سستی اور عامیانہ ہے، دکھ اس بات کا ہے کہ یہ بات کرنے والا بدقسمتی سے تین بار ہمارا وزیراعظم رہ چکا۔کسی وزیر بدتدبیر نے کہا ہے کہ ’’عوام کے ووٹوں کی توہین برداشت نہیں کریں گے‘‘ حالانکہ عوام اور ان کے ووٹوں کی توہین کا ارتکاب یہ خود کر تے ہیں اور دوسری بات یہ کہ اگر ’’برداشت‘‘ نہیں کرو گے تو کیاکرو گے؟سپریم کورٹ پر حسب ِ عادت حملہ؟ تو میں پہلے ہی یہ خوشخبری سنا چکا ہوں کہ اس بار ایسی کوئی جمہوری حماقت کی تو جمہور دانت اور مسوڑھے ہی نہیں جبڑے بھی ہاتھ پہ رکھ دیں گے۔جو بات نام نہاد منتخب اور کسی جمہوریئے کو کرنی چاہئے تھی، وہ آرمی چیف نے کی اور یہی ہمارے ہر بند قفل کی کنجی ہے۔ جنرل باجوہ نے کہا ’’آئین و قانون کی بالادستی ہر صورت برقرار رکھی جائے گی‘‘ صورت گری کی صرف یہی ایک صورت ہے۔ باقی سب افسانے یا ہوائی قسم کے انتخابی ترانے ہیں۔ ’’ تجھ سے تیرے اندھیرے مٹائیں گے ہم‘‘فرماتے ہیں ’’جانتا ہوں میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے‘‘ 
تو بھائی ! اس میں انکشاف والی کون سی بات ہے؟ کیونکہ آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ آپ نے کیا کچھ کیا ہے، بلکہ کیا کیا کچھ کیا ہے۔ بے تحاشہ دراز رسی لپیٹی جارہی ہے۔ وارداتوں کی فصل پک چکی اور کٹائی کا کٹھور موسم سر پر ہے۔ واقعی مجذوبوں اور مجرموں دونوں کو اپنے انجام کا علم نہیں تو اندازہ ضرور ہوتا ہے سو اگر میاں صاحب کو بھی ہے تو حیرت کیسی۔کوئی انہیں سمجھائے کہ یہ ریلیوں نہیں دعائوںکا وقت ہے۔ سڑکوں نہیں سجدوںکا سمے ہے۔ دلدل میں گرے شخص کو ہاتھ پائوں مارنے کی بجائے کسی ریسکیو ٹیم کے لئے دعا مانگنی چاہئے کیونکہ ہاتھ پائوں چلانے سے دلدل میں غرق ہو جانے کا پراسیس تیز تر ہو جاتا ہے۔اقامے سے 14لاشوں تک کے اس سفر میں بے تحاشہ نازک مقامات اور اندھے خونی موڑ ہیں۔ یہ مزاحمت نہیں اللہ سے معافی کا وقت ہے۔ خانہ جنگی کا خواب اپنا ہی خانہ مزید خراب کرنے کے مترادف ہوگا اس لئے اگر ممکن ہو اپنے دماغ کے اس ’’مرکز‘‘ کو جگانے اور ایکٹی ویٹ کرنے کی کوشش کریں جو ریزن اور لاجک کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔آئین اور قانون کی بالادستی….. ہر صورت میں، ہر قیمت پر!
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}
( شکریہ حسن نثار ڈاٹ پی کے)

اپنا تبصرہ بھیجیں