ہمارے ایک قریبی رشتہ دار کے برخوردار کی شادی ہوئی کچھ دنوں بعد گھر کی بہو نے کچن سنبھالا اور کھانا بنانا شروع کیا ساس نے کہا ہم سالن میں ٹماٹر نہیں ڈالتے تمہارے دیور کو پسند نہیں سسر نے کہا سالن بناتے وقت لہسن ہرگز نہیں ڈالنا مجھے پسند نہیں ہے نند نے کہا ادرک ذرا کم ہی رکھنا مجھے سکن الرجی ہو جاتی ہے۔ بے چاری نئی نویلی بہو بہت پریشان ہوئی کہ یہ کیسی ہنڈیا ہوئی نہ ادرک نہ ٹماٹر نہ لہسن تو پکاوں کیا اس سے بہتر تو ہے پھر سبزی تیل میں تل کے کھا لی جائے۔ بہرحال روز بے چاری بہو نے اجزائے ہنڈیا کے بغیر ہنڈیا بنانی اور ساس نے کہنا “ اے وی کوئی سالن اے سواد ای کوئی نئیں” آخر ایک دن بہو نے تنگ آکر سالن پکانے سے استعفی دے دیا اور اس کے بعد وہ دن آج کا دن سالن دوبارہ مزیدار ہو گیا۔
آج اسدعمر نے استعفی دیا تو بے چاری دلہن یاد آ گئی جس کو سارا گھر کہتا تھا یہ بھی نہیں ڈالنا وہ بھی نہیں ڈالنا اور سالن بھی مزیدار ہو اسی طرح اسد عمر کوروز طوائف کی طرح میڈیا کے صحافی جو خود روز چینل بدلتے ہیں معیشت پر سمجھا رہے ہوتے تھے پورا ملک سمیت اپوزیشن کے لگا ہوا تھا کہ معیشت نہیں اچھی ہو رہی اور ساتھ کہا جا رھا تھا آئی ایم ایف (لہسن) کے پاس بھی نہیں جانا قرضے (ٹماٹر) بھی نہیں لینے مہنگائی (ادرک) بھی کم کرنی ہے
لو بھائی تم لوگ اب پرانی بدذائقہ ہی ہنڈیا کھاو تمہاری اوقات ہی سبزی تل کے کھانے والی ہے سو کھاتے رہو۔
ڈاکٹر جاسم ارشاد چٹھہ