اب چونکہ نوید اور شمائلہ دونوں کی منگنی ہوچکی تھی مگر معلوم نہیں تھا یہ حادثہ دونوں طرف ہوا ہے اسلئے یہ بہت مشکل مرحلہ تھا کہ کیسے ایک دوسرے کو تمام صورتحال سے آگاہ کیا جائے اور سچ بتا دیا جائے۔
دوسری طرف یونیورسٹی کی دو سالہ یادیں ساتھ وعدے اور دعوے بھی تھے جس میں ایک ساتھ مرنے اور جینے کی قسمیں بھی تھیں یہ سب سوچ کر دونوں کو بہت بے چینی ہورہی تھی اب آگے کیا ہوگا اور ایسی جگہ دونوں کی منگنی بھی ایسی جگہ ہو چکی تھی جہاں کبھی کسی نے سوچا ہی نہیں تھا۔
کچھ دنوں بعد نوید ایک دوست کے ہاں گاؤں سے باہر چلا گیا جہاں اب وہ آسانی سے کسی بھی وقت شمائلہ سے رابطہ کر سکتا تھا۔
نوید نے بڑی سوچ و بچار کے بعد آخر کار ایک پلان کا سوچا اور یہ فیصلہ کیا کہ کسی بھی طریقے سے کانوکیشن تک شمائلہ کو پتہ نہیں ہونے دے گا اور پھر معاملات پہلے کی طرح ہی نارمل چلائیں جائے مگر رابطہ کم کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔
وہاں شمائلہ سوچ و بچار میں مصروف تھی کس طرح اب اس صورتحال سے نکلا جائے اور کیسے اس تلخ حقیقت سے پردہ ہٹایا جائے۔
وہاں گاؤں میں ایک مقامی سکول میں شمائلہ کو ٹیچر کی جاب بھی ملی تھی انہوں نے سوچا کہ اب اس بہانے کچھ ایسا کہوں کہ رابطہ کم ہوجائے شمائلہ نے بھی دل ہی دل میں رابطہ کم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
ایک دن صبح صبح شمائلہ نے مسیج کیا۔
شمائلہ ۔آج ایک گڈ نیوز سنانے والی ہوں۔
نوید مسیج پڑھتے ہی پریشان ہوگیا اور سوچنے لگا کہ کیا پتہ میرے بارے میں اس نے اپنے گھر والوں کو کچھ بتا دیا ہو؟
نوید۔ جی سنائیں۔
شمائلہ ۔ مجھے گاؤں کے سکول میں جاب ملی ہیں اب بطور استانی وہاں بچوں کو پڑھاؤں گی کل سے جاب شروع کی ہے لیکن؟؟؟؟؟
نوید۔ لیکن؟؟؟؟
شمائلہ۔ جی یارا دل بہت اداس ہورہا ہے۔
نوید۔ کیوں خیریت تو ہے ناں؟
شمائلہ۔ جی بس آپکو پتہ ہی ہے، گھر میں ہونے کی وجہ سے ہماری بات نہیں ہو پارہی تھی اسلئے اب یہ جاب شروع کی، لیکن یہاں بھی مصروفیت بڑھ گئی ہے۔
نوید ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے۔
نوید۔ اچھا تو اس لیے پریشان ہو کوئی بات نہیں اب گھر میں کام کاج اور جاب ساتھ ساتھ ہیں، اسلئے جب آپکو وقت ملے بات کر لینا۔
شمائلہ۔ ہاں ناں بس اسی وجہ سے دل خفا ہورہا ہے۔
نوید۔ ٹھیک ہے پھر میں دوست کے گھر آیا ہوا ہوں بعد میں بات کریں گے۔
شمائلہ۔ واہ یار بتایا بھی نہیں خیر پھر پوچھوں گی ابھی اللہ حافظ۔
نوید۔اللہ حافظ۔
اب رابطہ کم ہونے لگا تھا دونوں صرف فرصت کے لمحات میں بات کرتے تھے پہلے کی طرح وہ جنون نہیں رہا تھا مگر چاہت برقرار تھی دونوں کو سکون میسر نہیں تھا۔
کس طرح اصل حقائق سے پردہ اٹھایا جائے یہ بات مشکل ہوتی جارہی تھی اور دوسری طرف کانوکیشن کے دن بھی قریب آتے جارہے تھے جس میں وعدے کے مطابق دونوں نے اپنے والدین کو ساتھ لے کر آنا تھا اور جس میں باقائدہ اور باضابطہ طور پر رشتے کی بات ہونی تھی مگر قدرت کو جو منظور تھا وہ تو ہوچکا تھا۔
اب دونوں کے پاس محض تسلیوں کے سوا کچھ نہیں بچا تھا۔
جب گاؤں کی سکول میں شمائلہ کی ڈیوٹی شروع ہوئی تو وہاں اسکی ایک سہیلی بنی جسے وہ پہلے سے نہیں جانتی تھی لیکن کچھ ہی دنوں میں دونوں کا تعلق بہت قریبی سا بن گیا۔
شبنم کا تعلق دوسرے گاؤں سے تھا اور وہ سکول میں جاب کے لیے وہاں سے آئی ہوئی تھی۔
شبنم جب بھی دیکھتی تو شمائلہ کو کھوئی ہوئی اور کہیں گم پاتی وہ پوچھ لیتی کہاں گم ہوتی ہو۔
شمائلہ یہ کر ٹال دیتی کچھ نہیں بس یہ بچوں کا سوچ رہی ہوں جب ہم سکول میں تھے تو اتنی سہولیات میسر نہیں تھیں جو آج انکو حاصل ہیں۔
مگر شبنم بھی جان چکی تھی اصل بات کچھ اور ہے جس کی پردہ داری ہورہی ہیں۔
شمائلہ نے سہیلی کو یونیورسٹی کی کہانی کیسے سنائی اور سہیلی نے نوید سے کیا بات کی سب کچھ کچھ پڑھنے کیلئے تیسری قسط کا انتظار کریں۔