281

انگڑائی لیتا عوامی شعور: چند خدشات۔

اگر انسان صرف جذباتی ہو تو اندرونی انتشار کا شکار ہو کر طرح طرح کے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اِسی لیے اللہ نے انسان کو عقل عطا کی تاکہ وہ باہم متصادم جذبات میں توازن پیدا کر سکے۔ عقل کا منبع دماغ ہے جہاں سے پورا جسم کنٹرول ہوتا ہے۔ اسی طرح معاشرے بھی انسانی جسم کی طرح تعامل پذیر ہوتے ہیں۔ معاشرے کا بھی ایک دماغ ہوتا ہے جو پورے معاشرے کو کنٹرول کرتا ہے۔ معاشرے کا یہ دماغ انٹیلیجِنشیا (Intelligentsia) کہلاتا ہے جو عقلمند اور دانشمند لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ جابر اور طاقتور قوتوں کو سب سے زیادہ خطرہ اِنہی دانشور افراد سے ہوتا ہے کیونکہ اِن میں عوامی سوچ اور فِکر کا رُخ موڑنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ سے طاقتور اور جابر قوتیں اپنے معاشرے کے دانشوروں کو کچلتی اور مرواتی رہی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی تاریخ اِس بات پر بھی گواہ ہے کہ دانشور کُچلے بھی گئے اور مارے بھی گئے لیکن اُن کی دانش اور اُنکی فِکر کو نا مارا جا سکا ہے نا مارا جا سکے گا۔ بقول شاعر


ورنہ سقراط مر گیا ہوتا
اُس پیالے میں زہر تھا ہی نہیں

جو قومیں اپنے اہلِ علم اور اہلِ دانش افراد کی قدر نہیں کرتیں وہ انتشار کا شکار بھی ہوتی ہیں اور جبر کے تلوے بھی چاٹتی ہیں۔ مملکتِ خدادادِ پاکستان بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ہماری 70 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ جس بھی دانشور نے عوام کے حقوق کا عَلم بلند کیا، مقتدر قوتوں نے اُس پر غدار، ملک دشمن، دین دشمن یا دہشت گرد کا لیبل لگا کر ایک طرف عوام کو گمراہ کیا اور دوسری طرف اُن دانشوروں کو مار دیا یا کچل دیا۔ جو اپنی جان بچا سکے وہ اپنا ملک چھوڑ کر کسی آزاد وطن میں جا بسیرا کیے.

نتیجہ یہ نکلا کہ جو لوگ اہل تھے معاشرے میں وہ ناپید ہوتے چلے گئے اور نااہل و بدقماش لوگوں کے ہاتھ میں معاشرے کی باگ ڈور آن ٹھہری. نتیجہ سب کے سامنے ہے.

جب کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ ملک اللہ کے آسرے پر چل رہا ہے تو مجھے اُن لوگوں کی عقل پر نہ ترس آتا ہے نہ حیرت ہوتی ہے. ملک کی 50 فیصد سے زائد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہو، عدل و انصاف نام کی چیز ناپید ہو اور قتل و غارت گری عام ہو تو کیا اِسے ملک کا چلنا کہا جا سکتا ہے؟ اگر اِس طرح سے ملک چلنے کا کریڈٹ اللہ کے کھاتے میں ڈالیں گے تو کیا یہ اللہ کی توہین نہیں ہو گی، جسے ہم کائنات کا بہترین منتظم مانتے ہیں؟ قرآن میں ذکر ہے کہ اللہ جب کسی قوم پر اپنا عذاب بھیجنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس قوم کے بدمعاشوں کو قوم پر مسلط کر دیتا ہے. کیا ابھی بھی ہم اپنا اپنا انفرادی آئینہ دیکھ دیکھ خوش ہوتے رہیں گے یا تعفن زدہ اجتماعیت کی لاش پر بھی توجہ دیں گے؟

صاحبِ بصیرت و دانش لوگ چِلّا چِلّا کر خبردار کر رہے ہیں کہ معاشرے اس روش پر چلیں تو ختم ہو جاتے ہیں. کتنے بڑے بڑے فاتح آئے اور گزر گئے، کتنی بڑی بڑی مملکتیں وجود سے مٹ گئیں، تو ہم نے کون سا آبِ حیات پیا ہوا ہے جو ہمیشہ رہنے کے دعوے کر رہے ہیں؟ معاشرتی استحکام کی بنیادی کڑی نظامِ عدلِ اجتماعی کا قیام ہے. اِس کسوٹی پر خود کو پرکھ کے دیکھ لیں کہ ہم کتنی مضبوط بنیادوں پر کھڑے ہیں. اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ فقر کفر تک پہنچا دیتا ہے. جس قوم کی آدھی سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہو وہاں کسی دشمن ملک کے لیے اپنے ایجنٹ بھرتی کرنا، پیٹ کی خاطر ڈکیتی، اغوا یا قتل جیسی وارداتوں کا ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ہماری اشرافیہ بھی خاصی چالاک اور مکار واقع ہوئی ہے. گذشتہ 70 سال کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ہمیشہ نان ایشوز اصل ایشوز کو پس منظر میں دھکیلتے ہوئے نظر آتے ہیں. ہماری اشرافیہ کا ہمیشہ سے یہی وطیرہ رہا ہے کہ عوام جب کسی ایک تماشے سے تنگ آنے لگے تو کوئی نیا تماشا کھڑا کر دیا جائے. بقول اقبال

نیند سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اُس کو حکمراں کی ساحری

تماشا گری کے اس فن کو گذشتہ 15 برسوں میں ہمارے نومولود الیکٹرانک میڈیا نے چار چاند لگا دیے. الیکٹرانک میڈیا نے تو سچ میں قوم کو بندر ہی بنا کے رکھ دیا. رمضان ٹرانسمیشن ہو، مارننگ شوز ہوں یا کرنٹ افئیرز کے پروگرام ہوں، معلوم ہوتا ہے کہ اشرافیہ نے یہی گُر کارگر جانا ہے کہ عوام کو اُن چوپایوں کی صف میں لا کھڑا کیا جائے جو عقل و دانش سے بالکل محروم ہی نہیں بلکہ بیزار ہوں.

لیکن سوشل میڈیا کا جن جب سے بوتل سے باہر آیا ہے تو اب اشرافیہ بشمول الیکٹرانک میڈیا بے بس نظر آتے ہیں. سوشل میڈیا نے عوام میں خود شعوری اور اپنے حقوق کا جو احساس پیدا کیا ہے اُس سے اشرافیہ لرزاں و پریشاں نظر آتی ہے. اس کی ایک نظیر یہاں سے دیکھی جا سکتی ہے کہ کچھ سال پہلے یوٹیوب پر لگنی والی پابندی کے اٹھائے جانے میں حائل رکاوٹوں میں سے ایک رکاوٹ بذاتِ خود الیکٹرانک میڈیا کی اشرافیہ تھی. عمران خان کی شخصیت اور اس کے طرزِ سیاست سے لاکھ اختلاف سہی لیکن اس کو یہ کریڈت دینا ہی پڑے گا کہ عوامی شعور کی بیداری میں اس نے بہت کلیدی کردار ادا کیا ہے.

ملکی اشرافیہ اور الیکٹرانک میڈیا کے گٹھ جوڑ سے عوامی بےزاری اور بغاوت دو نتائج کی منظر کشی کرتی نظر آتی ہے. یا تو عوامی شعور کا یہ سیلاب اس سب اسٹیٹس کو، کو بہا لے جائے گا اور کسی منظم جماعت یا تحریک کی عدم موجودگی ملک میں انتشار اور بدامنی کا شاخسانہ ثابت ہو گی جس سے بیرونی قوتوں کو اس ملک میں براہ راست مداخلت کے اپنے دیرینہ خواب کی تعبیر کا موقع مل جائے گا. کندھا عوام کا ہو گا اور بندوق کسی اور کی. یا کسی بیرونی مداخلت کے خوف اور اپنے ذاتی مفاد کی خاطر موجودہ اسٹیٹس کو (status quo) ابھرتے ہوئے اس عوامی شعور کو بےرحمی سے کچل دے. دونوں صورت میں نقصان عوام کا ہی ہو گا.

ضرورت اس امر کی ہے عوام کے اس انگڑائی لیتے شعور کو کسی منظم تحریک یا جماعت کی لڑی میں پرویا جائے. جماعتِ اسلامی اور تحریکِ انصاف کی بنیادی غلطی سے بچا جائے. اگر نظام میں بنیادی تبدیلی لانا مقصود ہو تو اس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اس نظام کا حصہ نہ بنا جائے. اس کو مثال سے یوں سمجھایا جا سکتا ہے کہ اگر چھت کو گرانا مقصود ہو تو چھت کے نیچے کھڑا ہونا گویا اپنے ہی اوپر چھت کو گرانا ہو گا. جماعتِ اسلامی ہو، لیفٹسٹ جماعتیں ہوں یا تحریکِ انصاف، اُن سب نے بنیادی غلطی ہی یہ کی کہ نعرہ تو تبدیلی اور انقلاب کا لگایا لیکن خود الیکشن کی چھت تلے جا کھڑے ہوئے. اب کیسے گراتے اس نظام کی چھت کو اپنے ہی اوپر؟ نتیجہ یہ نکلا کہ نظام میں تبدیلی تو نہ آئی لیکن یہ جماعتیں اور ان کے اہداف بدل گئے. وہ تمام برائیاں جو دوسروں میں تھیں وہ اِن میں پیدا ہو گئیں۔

تعارف : لیکچرار، قومی ادارہءِ نفسیات، قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد, مکالمہ ڈاٹ کام

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: justify; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں