260

آزادی ہمارا سرمایہ

ماہ اگست شروع ہوتےہر طرف سبز ہلالی پرچم کی بہار نظر آنے لگتی ہے۔ فضا ملی نغموں اور ترانوں سے گونجنے لگتی ہے۔ اور ہر عمر کا فرد آزادی کے فخر و انبساط میں ڈوبا نظر آتا ہے۔ پچھلے چند برس سے انواع و اقسام کے بیج، جھنڈے۔ بچے اور بچیوں کی شرٹس، دوپٹے، ٹوپیاں، جھنڈ یاں ۔ کی چین، اور کلائی میں ڈالنے والے خوشنما بینڈ بازاروں میں فروخت ہوتے نظر آتے ہیں۔

اور مزے کی بات یہ کہ زیادہ تر مال چائنا و بھارت سمیت دوسرے ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے۔ کیا یہ عجیب سی بات نہیں کہ اپنے قومی پرچم اور اس سے مشابہت رکھنے والی اشیاء دوسرے ممالک سے منگوا رہے ہیں جب کہ ہمارے ہاں سبھی کچھ موجود ہے ۔ کپڑا بننے کے لیے اچھی کپاس اور بہت بڑ ی پلاسٹک انڈسٹری

لیکن ہم نے اپنے بہت سے کار خانے بند کر دے ہیں اور اپنے مزدوروں کو بے روزگار کر دیا ہے اور دوسرے ممالک کی انڈسٹری کو مضبوط کر رہے ہیں۔ پچھلے سال بھی اخبارات اور نیوز چینل پر خبر چلی تھی کہ اربوں روپے کی مالیت کا سامان 14 اگست کے سلسلے میں در آمد کیا گیا ۔

کیا ہمارے تاجران حکومتی اور سفارتی نمائندے اس تجارت کو نوٹس نہیں کر رہے کہ ہم اپنے جھنڈے تک دوسرے ملک سے منگوا رہے ہیں۔ اور اپنا قیمتی زر مبا دلہ دوسرے ممالک کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے استمال کر ر ہے ہیں ۔

وطن کی محبت جھنڈے اور بیج لگانے سے ہری سفید چوڑیاں پہنے سے یا ہرے سفید کپڑے پہنے سے ظاہر نہیں۔ ہوتی بلکے اپنے وطن کے مفاد کے لیے کام کرنے سے ظاہر کی جا سکتی ہے ۔ ہم قیمتی زر مبادلہ کو ملک کے مفاد میں استعمال کر کے وطن کی محبت کا حق ادا کر سکتے ہیں ۔

کاش اس سامان آرائش کو منگوانے کی بجاۓ ہم ڈیم کی تعمیر کہ لیے یہ پیسہ استمال کرتے اور در آمد شدہ اشیا کی بجاۓ میڈ ان پاکستان کے جھنڈے فخر سے اپنے سینے پر سجاتے ۔ یہ ایک سنجیدہ تجارتی مسئلہ ہے اسکے اوپر سوچنے کی ضرورت ہے اگر ہمیں اپنے ملک سے محبت ہے اور ہم اپنے کثیر سرمائے کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ۔

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں