واشنگٹن — عمان نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ کا ایک ملک ہے، جس سے ایک ہی روز قبل عمان نے اسرائیل کے وزیر اعظم کی میزبانی کی، جس کے بارے میں امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ دورہ علاقائی امن کی کوششوں میں معاون ثابت ہوگا۔
سلطنت کے امور خارجہ کے ذمہ دار وزیر، یوسف بن علوی بن عبداللہ نے بحرین میں سلامتی کے ایک سربراہ اجلاس کو بتایا کہ عمان اسرائیل اور فلسطینیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں مدد دینے پر تیار ہے۔ تاہم، وہ ثالث کے طور پر کردار ادا نہیں کر رہا۔
بن علوی نے کہا کہ ”اسرائیل خطے ہی کا ایک ملک ہے، جو بات ہم سبھی سمجھتے ہیں”۔
بقول اُن کے، ”دنیا بھی اس حقیقت سے آشنا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ (دوسرے ملکوں کی طرح) اسرائیل کو وہی سلوک دینے کا وقت آگیا ہو، جس کے لیے اسے بھی وہی ذمہ داریاں سنبھالنی ہوں گی”۔
اُن کے بیان سے قبل اسرائیل کے وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے عمان کا شاذ و نادر دورہ کیا، جس سے چند ہی روز قبل فلسطینی صدر محمود عباس نے اس خلیجی ملک کا سہ روزہ دورہ کیا۔ دونوں رہنما عمان کے سلطان قابوس سے ملے۔
بن علوی نے سربراہ اجلاس کو بتایا کہ ”ہم یہ نہیں کہ رہے کہ اب راستہ آسان ہے اور ہر طرف پھول کھلے ہوئے ہیں۔ لیکن، ہمارے لیے اولیت اس بات کی ہے کہ تنازع کو ختم کیا جائے اور نئی دنیا کی جانب قدم اٹھائے جائیں”۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ عمان کا امریکہ پر انحصار ہے جس کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ (مشرق وسطیٰ کے امن) کے لیے ”صدی کے بڑے معاہدے” کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں۔
بحرین کے وزیر خارجہ، خالد بن احمد الخلیفہ نے اسرائیل فلسطین امن کے حصول کے لیے سلطنت کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کی حمایت میں آواز بلند کی؛ جب کہ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عدل الجبیر نے کہا کہ اُن کا ملک سمجھتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی چابی امن عمل ہی ہے۔
سہ روزہ سربراہ اجلاس میں سعودی عرب اور بحرین شریک تھے۔ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس اور اُن کے اطالوی اور جرمن ہم منصب بھی اجلاس میں شریک تھے۔ لیکن، اردن کے شاہ عبداللہ نے اپنا دورہ منسوخ کیا، چونکہ بحیرہ مردار کی طغیانی کے نتیجے میں اُن کے 21 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔