429

قابلِ رحم ہے وہ قوم۔ خلیل جبران

خلیل جبران ( 1931-1883) لبنانی امریکن فنکار، شاعر اور مصنف تھے جنکی زندگی کا زیادہ تر حصہ نیویارک امریکہ میں گزرا تھا، اپنے زمانے کے مشہور دانشور اور فلاسفر تھے۔ انکی مشہور کتاب دا پروفٹ ( the Prophet) 1923 میں شائع ہوئی۔ شیکسپئر اور لاؤزی کے بعد خلیل جبران کی کتابیں دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والی تھیں۔ انکی مشہور نظم Pity the nation اردو ترجمہ کیساتھ حاضر خدمت ہے۔

قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے پاس عقیدے تو بہت ہیں
مگر دل یقین سے خالی ہیں

قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو ایسے کپڑے پہنتی ہے
جس کے لیے کپاس
اُن کے اپنے کھیتوں نے پیدا نہیں کی
اور جو دوسروں کی کشیدہ شراب سے لطف اندوز ہوتی ہے۔

اورقابلِ رحم ہے وہ قوم
جو باتیں بنانے والے کو
اپنا سب کچھ سمجھ لیتی ہے
اور چمکتی ہوئی تلوار سے بنے ٹھنے فاتح کو
اپنا ان داتا سمجھ لیتی ہے

اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو بظاہر خواب کی حالت میں بھی
ہوس اور لالچ سے نفرت کرتی ہے
مگر عالم بیداری میں
مفاد پرستی کو اپنا شعار بنا لیتی ہے

قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو جنازوں کے جلوس کے سوا
کہیں اور اپنی آواز بلند نہیں کرتی
اور ماضی کی یادوں کے سوا
اس کے پاس فخرکرنے کا کوئی سامان نہیں ہوتا

وہ اس وقت تک صورتِ حال کے خلاف احتجاج نہیں کرتی
جب تک اس کی گردن
عین تلوار کے نیچے نہیں آجاتی

اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے نام نہاد سیاستدان
لومڑیوں کی طرح مکّار اور دھوکے باز ہوں
اور جس کے دانشور
محض شعبدہ باز اور مداری ہوں

اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو اپنے نئے حکمران کو
ڈھول بجا کر خوش آمدید کہتی ہے
اور جب وہ اقتدار سے محروم ہوں
تو ان پر آوازیں کسنے لگتی ہے

اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے اہلِ علم و دانش
وقت کی گردش میں
گونگے بہرے ہو کر رہ گئے ہوں

اور قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو ٹکڑوں میں بٹ چکی ہو اور جس کا ہر طبقہ
اپنے آپ کو پوری قوم سمجھتا ہو

Pity the nation that is full of beliefs and empty of religion
Pity the nation that wears a cloth it does not weave
eats a bread it does not harvest
and drinks a wine that flows not from its own wine-press
Pity the nation that acclaims the bully as hero
and that deems the glittering conqueror bountiful
Pity a nation that despises a passion in its dream
yet submits in its awakening
Pity the nation that raises not its voice
save when it walks in a funeral
boasts not except among its ruins
and will rebel not save when its neck is laid
between the sword and the block
Pity the nation whose statesman is a fox
whose philosopher is a juggler
and whose art is the art of patching and mimicking
Pity the nation that welcomes its new ruler with trumpeting
and farewells him with hooting
only to welcome another with trumpeting again
Pity the nation whose sages are dumb with years
and whose strong men are yet in the cradle
Pity the nation divided into into fragments
each fragment deeming itself a nation

قابلِ رحم ہے وہ قوم۔ خلیل جبران” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں