بہتر سے بہترین زندگی کی تلاش اور ترقی و شہرت کی بلندیوں کو چھونا انسانی فطرت کا وہ خواب ہے جس سے شاید ہی کوئی انکار کرے۔ جب انسان اپنی لگن، محنت اور کوششوں سے مادی زندگی کی وہ عیش و عشرت کا مقامِ ہدف حاصل کر لیتا ہے تو بھی اُس کا دل مطمئین نہیں ہوتا اور وہ پہلے سے بھی کئی گنا بے چین رہتا ہے، دولت کے بل بوتے پہ پرسکون رہنے کے ہر ذریعے کو استعمال کرتا ہے، تمام تر شاہانہ سہولتوں کے باوجود قلبی بے سکونی میں ذرہ بھر بھی کمی نہیں آتی تو وہ سکون قلبی کی تلاش میں ایسی ایسی حرکات بھی سرانجام دیتا ہے جسے سیکولر معاشرے میں بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ قلبی بے یقنی کی وجہ سے اس طرح کے واقعات اکثر غیر معمولی صلاحیت کے حامل حضرات شہرت کی بلندیوں کو پہنچ کر بےسکونی کو زیادہ محسوس کرتے ہیں۔
اس کی ایک مثال ماضی قریب میں عالمی شہرت یافتہ مائیکل جیکسن کی ہے جسے اللہ نے بے شمار دولت اور شہرت سے نوازا مگر اُن سے سکون چھین لیا۔ وہ قلبی سکون کے لیئے مہلک نشہ آور ادویات اور دیگر غیر اخلاقی حرکات کی وجہ سے میڈیا کی زینت بنا رہتا تھا۔ اگر میں یہاں سویڈن کی مثال سامنے رکھوں تو یہاں معاشی طور پر تو ہر شخص خوش حال ہے، مگر تسکین قلبی کا فقدان یہاں بہت زیادہ ہے عارضی سکون کی خاطر جمعہ کی شام سے ہفتہ کی رات تک ہر شخص مدہوش نظر آتا ہے۔ کچھ حضرات نے موسیقی کو روح کی غذا قرار دیا ہے، مگر اس شعبہ میں ترقی کی منازل طے کر کے عروج پر پہنچنے والوں پر تجربات و مشاہدات نے ثابت کردیا ہے کہ موسیقی روح کی غذا کی یہ اصطلاح صرف مفروضہ ہے حقیقت میں اس مقام پر بھی بدستور قلبی بے چینی اور خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔
اصل قلبی سکون جس کو روحانی تسکین کہتے ہیں وہ کچھ اور ہے۔ سکون قلبی کے سفر میں دنیائے موسیقی کے نامور اشخاص جو حقیقی روحانی تسکین سے فیضیاب ہوئے اُن میں سے پاکستان کے جنید جمشید، یوکے سے یوسف اسلام ( کیٹ سٹیفن) اور امریکن بیڈ بوائے ایل ہیکوانگ ہیں، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے عالمی شہرت یافتہ حضرات کو معنوی تسکین قلب نصیب ہوئی ہے۔ ان خوش نصیبوں میں سے جس شخصیت کو سر نامہ کلام ٹھہرایا ہے وہ اٹھارویں صدی کی عالمی شہرت یافتہ شخصیت اگاستاج ایوان اگیلی ہیں، جو اپنے زمانے میں فن مصوری میں بے تاج بادشاہ تھے۔ اُن کے شاہکاروں میں فطرت کے حسین مناظر، برہنہ حسن زن کی تصاویر کشی شامل ہیں۔ اسٹاک ہوم شہر سے 2 گھنٹے کی دوری پر لونگ فرسنگ جھیل کے کنارے آباد شہر سالا میں اُن کے نام سے منسوب میوزیم میں موجود ہیں۔
غالباً 1890 کی دہائی میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر اُنھیں 5 ماہ پابند صلاصل رکھا گیا۔ میرا غالب گمان ہے کہ قید کے دوران اُن پر فتوحات کے دروازے کھلے ہونگے اور دل کی دنیا بدل گیی ہوگی، اسی لیئے قید سے آزادی کے فوراً بعد اُنھوں نے مصر کا رخت سفر باندھ لیا اور قاہرہ پہنچ کر اسلام قبول کیا اور اپنا نیا اسلامی نام عبدالہادی اگیلی پسند کیا اور جامعہ الازہر میں مغرب سے پہلے طالب علم کی حیثیت سے علوم اسلامیہ میں داخلہ لیا۔ آپ 1909 تک قاہرہ میں علوم شریعت اور روحانی تربیت کے حصول میں مقیم رہے۔ وہاں قیام کے دوران شیخ الاکبر ابن عربیؒ کی تعلیمات سے بے حد متاثر ہوئے۔ قاہرہ میں سلسلہ شازلی کے شیخ عبدالرحمن کے حلقہ اردات میں داخل ہوئے۔ سخت مجاہدات ، ریاضت اور شیخ کی کمال تربیت کی وجہ سے آپ روحانیت کے اعلیٰ مقام پر پہنچے، شیخ سے سند ارشاد ملنے کے بعد آپ نے واپس یورپ کا سفر اختیار کیا اور کچھ عرصہ فرانس میں گزارا، وہاں پیرس میں قیام کے دوران آپ نے الاخبریہ صوفی سوسائٹی کی بنیاد رکھی جس کے پہلے ممبر پیرس کے مشہور ادیب رینڈ جان جوزف بننے جنہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام عبدالوحد یحییٰ پسند کیا۔ صوفی سوسائٹی یعنی خانقاہ کو عبدالوحد کے سپرد کر کے، آپ نے بارسلونا کا سفر کیا۔ وہاں پر قیام کے دوران حکومت وقت کو آپ کی شخصیت گراں گزری اور آپکو ایک دفعہ پھر پابند صلاصل کرنا چاہا تو تنہا کشتی کے ذریعے سویڈن کا سفر کیا۔ 24 اکتوبر 1917 رات کے اندھیرےمیں ریلوے پٹری کو عبور کرتے ہوئے ریل گاڑی کی ٹکر سے جانِ افرین کے حوالہ کر دیا۔
شیخ عبدالہادی کی خبرِ وصال سپین کے سرکار تک پہنچی تو اُنھیں نے شیخ کی لاش کو امانت کے طور پر بارسلونا میں دفن کیا۔ شیخ عبدالہادی ملک کے مشہور و معروف مصور تھے اس لیئے سویڈن سرکار نے سن 1981 میں حکومت سپین کی اجازت سے قبر کشائی کی اور شیخ ؒ ؒ کے جسد خاک کو سویڈن لایا گیا اور آپ کے آبائی شہر سالہ میں دوبارہ دفنایا گیا ہے۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}