Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
461

اہل دیہات کاغم

دل والوں کادرداہل دل ہی جانیں، شہرکے بڑے بڑے سکولوں، کالج اوریونیورسٹیوں میں پڑھنے اورتاج محلوں میں پلنے والے سیاستدانوں اورحکمرانوں کودیہات میں رہنے والے غریبوں کے دکھ اوردردکاکیاپتہ۔۔؟ سونے کاچمچہ منہ میں لیکر پیداہونے والے اہل دیہات کادرداورغم کیاجانیں۔۔؟ برگر،شوارما اور پیزے پرمنہ کا ذائقہ تبدیل کرنے والوں کوکیاعلم کہ گاؤں اوردیہات کے لوگ کس اذیت اورمشکل سے زندگی گزارتے ہیں۔۔؟ جن کوشہرمیں آٹے ،چینی اورگھی کے بھاؤ کانہیں معلوم وہ غربت وپسماندگی میں،، غریبوں کے بہاؤ سے کیسے آشناء ہوں گے۔۔؟ ہمارے اہل دیہات کی یہ بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ انہیں دورجدیدمیں جوبھی سیاسی نوکر،خادم اورنمائندے ملے وہ برگر، شوارمے اورپیزے والے ملے۔اہل دیہات کی بھاگ دوڑجب تک ان پڑھ سیاسیوںکے ہاتھ میں تھی تب تک وہ بھی ترقی سے مستفیدہوتے رہے لیکن جب سے شہروں میں پلنے اورنامی گرامی کالجوں سے پڑھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ اورماڈرن قسم کے سیاستدان بطورممبران صوبائی وقومی اسمبلی ان پرمسلط ہوئے ہیں اس کے بعدسے ان کی زندگیاں بھی عذاب سی بن گئی ہیں۔
اہل دیہات سے ووٹ بٹورنے والے ان ممبران کوشہروں میں گھومنے پھرنے اوررہنے کی عادت تو پرانی بلکہ بہت پرانی ہے۔اب اہل دیہات دردمیں رہے یاکسی تکلیف اورپریشانی میں ۔۔اس سے ان ممبران کاکیاتعلق۔۔؟یاکیالینادینا۔۔؟پنجاب،سندھ،بلوچستان اورخیبرپختونخواکے دیگردیہات اوراہل دیہات کاتوہمیں علم نہیں لیکن سناہے کہ ہم نے بٹگرام کے جن دیہات کے صاف وشفاف چشموں سے پانی پیا۔ جن دیہات میں ہمارابچپن گزرا۔آج ان دیہات اوراہل دیہات کاایسے ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ اورماڈرن قسم کے ممبران سے واسطہ پڑاہے۔جنوبی پنجاب کے کچھ دیہی علاقوں اورسندھ کے تھرپارکرکی پسماندگی،غربت اورعوام کی بدحالی کے قصے اورکہانیاں توہم نے بہت سنی تھیں لیکن اپنے آبائی ضلع بٹگرام میں پسماندگی،غربت اوربدحالی کے صرف قصے اورکہانیاں نہیں بلکہ ایسے ہولناک اوردردناک مناظر حقیقت میں ہم نے اپنی ان گنہگارآنکھوں سے دیکھ بھی لئے۔بٹگرام کاشمارخیبرپختونخواکے پسماندہ ترین اضلاع میں ہوتاہے۔سیاسی،سماجی اورمذہبی لحاظ سے تو بٹگرام کاشمارہمیشہ اہم رہاہے مگرجدیدترقیاتی کتاب میں اس ضلع کاآج تک کوئی نام بھی نہیں ملا۔
ان پڑھ اورجاہل دیہی سیاستدانوں کی برکت سے یہاں برسوں پہلے ترقی کی جوگاڑی چل پڑی تھی اب ماڈرن اورشہری سیاستدانوں کے ہاتھوں اس کے چاروں ٹائرپنکچرہوچکے ہیں ۔سالوں پہلے ان دیہات اورعلاقوں میں پانی کے لئے جوپائپ لگائے گئے تھے ہمارے موجودہ سیاستدانوں اورممبران کے کمالات وانوارات کی وجہ سے وہ پائپ اب نہ صرف خشک اورزنگ آلودبلکہ جگہ جگہ سے ٹوٹ بھی چکے ہیں۔کل تک بجلی کی جوتاریں عوام کوروشنی دینے کے لئے استعمال ہوتی تھیں آج ان تاروں پرگیلے کپڑے سکائے جارہے ہیں ۔چوبیس گھنٹوں میں 22اور23گھنٹے لوڈشیڈنگ کامعمول اورکہیں ہویانہ۔۔؟ لیکن یہ کارنامہ بھی اس بدقسمت ضلع میں سالوں سے بڑی ڈھٹائی اوربے شرمی کے ساتھ سرانجام دیاجارہاہے۔پانی،بجلی،گیس،صحت وتعلیم سمیت دیگربنیادی سہولیات اورضروریات کااس ضلع میں دوردورتک کوئی نام ونشان نہیں ۔یہاں کی رابطہ سڑکوں پرسفرکرنے کی وجہ سے مغلیہ دورکی کھنڈرات اورآثارقدیمہ کادیداردنیاجہان کے بدقسمتوں کوبھی چندلمحوں میں نصیب ہوتاہے۔یہاں بجلی کی خشک تاریں،کھنڈرنماسڑکیں،پانی کی زنگ آلودپائپس،سہولیات وضروریات سے خالی محکمہ صحت وتعلیم کے بھوت بنگلے دیکھ کریہ گمان ہونے لگتاہے کہ شائدیہ زندہ انسانوں کے رہنے کی کوئی جگہ نہیں بلکہ انتہاء قسم کے خطرناک جانوروں کاکوئی مسکن گاہ ہے جس میں وحشی درندے اورپرندے کہیں اڑکریاچھلانگیں مارکروقت گزارتے ہیں۔
رابطہ سڑک ،پانی،بجلی،گیس،ہسپتال اورسکول یہ انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہیں جہاں یہ نہ ہوں وہاں انسان کس طرح زندگی گزارسکیں گے۔۔؟ہمارے اکثردیہات،گائوں اوردیگرپہاڑی علاقے آج ان سہولیات اوربنیادی ضروریات سے یکسرمحروم ہیں ۔ملک وقوم کے لئے ہردوراورہرمحاذپرقربانیاں دینے والے ہمارے دیہاتی لوگ آج کس طرح زندگی گزاررہے ہیں ۔۔؟ہم میں سے کسی کواس کی کوئی پرواہ نہیں ۔بے چارے سادہ دیہاتیوں کے مضبوط کندھوں پرچڑھ کراقتداراورکرسی تک پہنچنے والے ہمارے ایم این ایزاورایم پی ایزانہی غریب دیہاتیوں کی وجہ سے بھاری تنخواہیں اورمراعات لیکر موج مستیاں اورعیاشیاں توکرتے ہیں مگران کوپھریہ غریب دیہاتی کبھی یادنہیں رہتے۔اسلام آباداورپشاورکی رنگینیوں میں گم این اے 22اورپی کے59بٹگرام کے منتخب ممبران بھی ہوامیں اڑکراسمبلی نہیں پہنچے۔ انہیں بھی بٹگرام کے ہزاروں اورلاکھوں دیہاتیوں نے اپنے کندھے دے کراس مقام تک پہنچایا۔عوامی مسائل کوحل کرنامنتخب نمائندوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔جولوگ ووٹ لیکراسمبلی پہنچتے ہیں ان پرپھرعوام کی خدمت فرض ہوجاتی ہے۔ برگر،شوارمے اورپیزے کھانے سے کوئی عوامی مسائل کے حل اوراپنی ذمہ داریوں سے بری الزمہ نہیں ہوجاتا۔غریبوں کی ووٹ کی برکت سے فائیوسٹارمیں چکن،مٹن اوربریانی اڑانے والوں کومکئی کی روٹی ،سہاگ اورلسی پینے والے دیہاتیوں کوبھی ایک لمحے کے لئے ضروریادکرناچاہیئے۔ویسے جولوگ اپنے حلقے کے عوامی مفادات اورحقوق کاتحفظ نہ کرسکیں انہیں پھرسیاست کرناہرگززیب نہیں دیتا۔
سیاست اہل دل اوراہل زباں کاکام ہے ۔جولوگ سینے میں دل اورمنہ میں زبان نہیں رکھتے انہیں چوڑیاں پہن کرپھرکوئی اورکام اوردھندہ کرناچاہیئے۔بٹگرام اوراہل بٹگرام کے مسائل دیکھ کریہاں سے منتخب ہونے والے ممبران کے انتخاب پررونا،چیخنا،چلانااورماتم کرنے کادل کرتاہے۔جہاں آمدورفت کے لئے کوئی وسیلہ ہواورنہ ہی پانی، گیس، صحت وتعلیم کاکوئی سلسلہ۔جہاں 23گھنٹے بجلی کی تاریخی لوڈشیڈنگ ہو۔وہاں کے منتخب ممبران یاعجوبے واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ہمارے نااہل اورمفادپرست سیاستدانوں کی وجہ سے اس ملک میں ،،بٹگرام ،،کی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ پسماندگی،غربت اورعوامی بدحالی کی صورت میں ہمیں پنجاب،سندھ اوربلوچستان میں بھی جگہ جگہ بہت سے بٹگرام دکھائی دیں گے۔جہاں مفادپرست اورنکمے سیاستدانوں کے ڈیرے ہوں ۔وہاں پھربٹگرام اورتھرپارکرجیسے علاقے بننے میں دیرنہیں لگتے۔ دیہات کاپانی پینے کی وجہ سے اہل دیہات کاغم اعلیٰ ایوانوں تک پہنچاناہم پرقرض اورہماراایک فرض تھا جو ہم نے اس کالم کے ذریعے اداکرنے کی ایک ناکام سی کوشش کردی ہے۔
اللہ کریں ہمارے یہ بے ربط اورٹوٹے پھوٹے الفاظ اقتدارکی رنگینیوں اور شہرکی مستیوں میں گم پنجاب، سندھ، بلوچستان اورخیبرپختونخواکے اہل دیہات کے منتخب نمائندوں،خادموں اورسیاسی نوکروں کی کانوں تک کسی نہ کسی طرح پہنچے تاکہ انہیں بھی اپنے کارناموں پرکوئی فخرمحسوس ہو۔جس طرح ان غریب دیہاتیوں سے ووٹ لینے کے لئے کوئی آسمانی یاکوئی تیسری مخلوق نہیں آئی اسی طرح اب ان کے مسائل حل کرنے کے لئے بھی کوئی اورمخلوق نہیں آئے گی ۔جن لوگوں نے ان بے چاروں سے ووٹ لئے اب ان کے مسائل حل کرنابھی انہی لوگوں کی ذمہ داری ہے۔اس لئے بٹگرام سمیت ملک بھرکے وہ تمام ممبران اسمبلی،سیاستدان اورحکمران جواہل دیہات کے کندھے پرسوارہوکراقتداراوراسمبلی میں پہنچے وہ اب ان غریب دیہاتیوں کے آنسوپونجھ کران کی ترقی اورخوشحالی کے لئے آگے آئیں ۔ویسے یہ دیہاتی لوگ ان دودھ پیتے سیاستدانوں سے زیادہ سیانے اورسرپھرے ہوتے ہیں یہ کسی کوتخت پربٹھانے کاکام جانتے ہوں یانہ لیکن کسی کاسیاسی تختہ کرنے کاکام تو کوئی ان سے سیکھیں۔جس طرح یہ قسمت والوں کوکندھوں پراٹھاتے ہیں پھراسی زورسے یہ ان کو زمین پرمارنے یاپٹخنے میں بھی کوئی ثانی نہیں رکھتے ۔اس لئے دیہات اوراہل دیہات سے یہ سیاسی دشمنیاں اچھی نہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں