جمعہ کے روز پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی میں ایک ہسپتال کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کو احساس ہے کہ ملک میں مہنگائی ہے تاہم انھوں نے عوام کو یقین دلایا کہ قرض اتارنے کے لیے ہمیں تھوڑا مشکل وقت گزارنا پڑے گا۔
اسی روزدارالحکومت اسلام آباد میں پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے وفود کے مابین مزید قرض حاصل کرنے کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا۔ اس ملاقات کے بارے میں وزارت خزانہ کی جانب سے دیے گئے بیان میں کہا گیا کہ مذاکرات خوش اسلوبی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور وہ مزید دو دن جاری رہیں گے۔
البتہ ماہرین کے مطابق اس ملاقات میں جس قرضے کے لیے بات چیت ہو رہی ہے، اُس قرض سے مشروط آئی ایم ایف کی کڑی شرائط نہ صرف پاکستان میں مزید غربت اور بے روزگاری کا باعث بنیں گی بلکہ مہنگائی کا ایک نیا طوفان عوام کو آن گھیرے گا۔جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کی ان شرائط میں ٹیکس کی شرح بڑھانے اور اس جیسے دوسری معاشی اصلاحات کے اقدامات شامل ہوتے ہیں۔
سنہ 1947 میں وجود میں آنے کے صرف تین سال بعد پاکستان 11 جولائی 1950 میں آئی ایم ایف کا ممبر بنا تھا اور گذشتہ 69 برسوں میں قرضے کے حصول کے لیے 21 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ہے۔
سنہ 1988 سے پہلے پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین ہونے والے معاہدے قلیل مدتی بنیادوں پر ہوتے تھے جن میں عمومی طور پر قرض معاشی اصلاحات سے مشروط نہیں ہوتے تھے۔ تاہم سنہ 1988 کے بعد ’سٹرکچلرل ایڈجسمنٹ پروگرامز شروع ہو گئے۔ سٹرکچلرل ایڈجسمنٹ پروگرامز‘ یعنی ایس اے پی وہ ہوتے ہیں جن میں قرض دینے والا ادارہ شدید معاشی مشکلات کے شکار قرض حاصل کرنے والے ممالک کو مخصوص شرائط کے تحت نیا قرض دیتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے ممبر ممالک جو قرض حاصل کرتے ہیں وہ ان ممالک کے ہی پیسے ہوتے ہیں۔ ہر ممبر ملک آئی ایم ایف کو اپنے حصے کے پیسے دیتا ہے اور اس حصے کے عوض آئی ایم ایف ہر ممبر ملک کا ایک کوٹہ بناتا ہے اور اس کوٹے کے اندر رہ کر آئی ایم ایف سے ضرورت کے تحت قرض حاصل کیا جاتا ہے۔
اگر کوئی ممبر ملک اپنے مخصوص کوٹے سے زیادہ قرض حاصل کرنے کا خواہاں ہے تو یہ قرض مشروط ہوتا ہے اور قرض حاصل کرنے والے مملک کو چند معاشی اصلاحات پر مبنی شرائط پوری کرنی پڑتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ رہی ہے کہ پاکستان قرضہ تو لے لیتا ہے مگر قرض کے حصول کے وقت وعدہ کی گئی شرائط، جیسا کہ معاشی اصلاحات، پورا نہیں کرتا۔ پاکستان آدھی پونی شرائط پوری کرتا ہے، امریکہ سے سفارش کرواتا ہے اور آئی ایم ایف نیا قرضہ دے دیتا ہے۔
مشیر خزانہ حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ ’سنہ 2019 کا پروگرام پرانے پروگراموں سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس مرتبہ پاکستان کے پاس امریکہ کی کسی قسم کی سفارش موجود نہیں ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں سنہ 2002 میں لیے جانے والے پروگرام میں زبردست امریکی سفارش تھی کیونکہ پاکستان افغانستان کی جنگ میں امریکہ کا نان نیٹو اتحادی بننے جا رہا تھا۔
سنہ 2008 میں بھی ایسا ہی تھا جب اوباما انتظامیہ پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات قائم کرنا چاہ رہی تھی جبکہ سنہ 2013 میں بھی آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے لیے اوباما انتظامیہ کی سفارش موجود تھی۔ لیکن اب ٹرمپ انتظامیہ آنے کے بعد صورتحال مختلف ہے اور واشنگٹن میں پاکستان کی کسی طرح کی سپورٹ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اس مرتبہ مکمل طور پر آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر ہے اور پاکستان کو سخت شرائط پوری کرنا پڑیں گی۔
آئی ایم ایف کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان کا مختص کوٹہ 2031 ملین ایس ڈی آر ہے۔ ایس ڈی آر کرنسی کی وہ قسم ہے جو آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی ادارے لین دین کے لیے استعمال کرتے ہیں اور 10 مئی کو ایک ایس ڈی آر کی قدر 1.38 امریکی ڈالر کےبرابر تھی ۔’پاکستان اپنے مختص کوٹے کا 225 فیصد قرض حاصل کرنا چاہتا ہے جو کہ تقریباً 6.3 ارب امریکی ڈالر بنتا ہے۔ اور اگر کچھ غیر معمولی ہوا تو یہ قرض آٹھ ارب تک ہو سکتا ہے۔
ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرض لیا ہو اور واپس نہ کیا ہو۔ آئی ایم ایف کوئی روایتی بینک نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کا ڈیفالٹر ہونا خودکشی کے مترادف ہو گا۔ قرض واپس نہ کرنا پورے بین الاقوامی معاشی سسٹم سے الگ تھلگ ہونا ہو گا۔ آئی ایم ایف سے قرض کا حصول کسی ملک کی معیشت کو چلانے کے لیے آخری حربہ ہوتا ہے۔
آئی ایم ایف کی قرض واپس کرنے کی شرائط کوئی اتنی سخت نہیں ہوتیں۔ ‘پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور میں سنہ 2013 میں پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ جس پروگرام پر دستظ کیے تھے اس قرض کو واپس کرنے کا وقت 20 برس تھا اور شرح سود لگ بھگ صرف دو فیصد تھی۔
سنہ 2008 میں شوکت عزیز کے دور میں پاکستان نے قلیل مدتی پروگرام لیا تھا اور اس کی واپسی بہت جلدی ہوئی تھی۔ گذشتہ ادوار میں حاصل کیے گئے قرض سے پاکستان نے ابھی 5.8 ارب امریکی ڈالر واجب ادا ہیں جن کی اقساط مخصوص وقت پر واپس ہو جائیں گی۔ آئی ایم ایف میں مصر کو ایک پوسٹر چائلڈ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ جبکہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے سے پہلے مصر میں تقریباً 30 فیصد لوگ خطِ غربت سے نیچے تھے اور آج یہ شرح 55 فیصد ہے۔
مصر میں اس طرح کے پروگرام کے ثمرات یہ ہیں کہ غربت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ مصر کی کرنسی کی قدر کم ہونے سے وہاں مہنگائی بہت تیزی سے بڑھی۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے پاکستان میں بھی یہی ہو گا، ڈسکاؤنٹ ریٹ بڑھے گا، روپے کی قدر کم ہو گی، غربت اور بے روزگاری بڑھے گی، تمام طرح کی سبسڈیز ختم ہوں گی، گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھیں گی اور یہ سب پاکستانی عوام کے لیے بہت تکلیف دہ ہو گا۔ قرض سے پاکستان میں کسی طرح کا معاشی استحکام نہیں آئے گا کیونکہ یہ شرح نمو کو مزید گرا دے گا۔
آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد کے دو سے تین برس تک ہمیں اپنے جی ڈی پی کی شرح نمو دو سے ڈھائی فیصد رکھنا ہو گی۔ جس ملک میں 15 لاکھ نوجوان ہر برس روزگار کی تلاش میں مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں اس ملک میں شرح نمو کم از کم سات سے آٹھ فیصد ہونا ضروری ہے۔
اگر قلیل مدتی اثرات کی بات کی جائے تو یہ قرضہ پاکستان کے لیے کسی حد تک معاشی استحکام کا باعث بنے گا اور اس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بحال ہو گا جبکہ معاشی پالیسیوں میں بہتری کا عنصر آئے گا۔ دوسری جانب روپے کی قدر میں کمی اور ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کی وجہ سے بالواسطہ عوام متاثر ہوں گے اور مہنگائی بڑھے گی اور تمام درآمدی اشیا کی قیمت بڑھے گی۔
بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا جبکہ شرح نمو آئندہ برسوں میں کم رہے گی۔ پاکستانی عوام پر اس قرضے کے شدید معاشی اثرات ہوں گے۔ مزید ٹیکس لگانے پڑیں گے، محصولات کو بہتر کرنا پڑے گا، شرح سود کو بڑھانا پڑے گا اور روپے کی قدر کو مزید گرانا پڑے گا۔ معاشی میدان میں موجودہ مشکلات اور مہنگائی میں صحیح معنوں میں اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط ہر عملدرآمد کے ساتھ شروع ہو گا۔