Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
288

صاحب، بی بی اور عذاب۔

شوہر ہونے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ سچ بھی بول رہے ہوں تو جھوٹے ہی لگتے ہیں. اور بیوی ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ نے ڈک ورتھ لوئس میتھڈ سے جیت جانا ہوتا ہے. بچپن سے سنتے آئے تھے کہ میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں. بڑے ہوئے تو معلوم ہوا کہ جس زمانے کا یہ مقولہ ہے اس زمانے میں دریافت گاڑیوں میں گدھا گاڑی یا گھوڑا گاڑی ہی تھیں. کیونکہ دو پہیے آج تک بس انہیں گاڑیوں میں ہوتے ہیں. زمانے کی ارتقا کے ساتھ گاڑی کے پہیے تو چار ہو گئے مگر نہ مقولہ ارتقا کا سفر کر سکا نہ ہی میاں بیبی کا رشتہ. ہاں البتہ سائیکل اور موٹر سائیکل کی دریافت نے ثابت کیا کہ دو پہیوں کی سواری ہمیشہ سے خطرناک ہوتی ہے.

شادی بیک وقت انسانی زندگی کا سب سے خوبصورت اور سب سے مشکل تجربہ ہوتی ہے. میرا اندازہ ہے کہ ہر پاکستانی اپنی زندگی کے تیس سے چالیس سال آرام سے شادی شدہ رہ لیتا ہے. وہ بھی ایک ہی انسان سے!!

میری پینتیس سے کچھ سال کم عمر میں میں نے اگر کسی چیز کو ترقی کرتے دیکھا ہے تو سیاستدانوں کی دولت، مملکت خداداد کی غربت اور جہالت اور مارننگ شوز کی صنعت کے علاوہ شادی کی تقریبات ہی کو دیکھا ہے. بھلے وقتوں میں ست رنگی شامیانے لگا کے لال کرسی کے اوپر چادر چڑھی ہوتی تو چھ ماہ شادی کے انتظام نہیں بھولتے تھے. لیکن آج شادی کی تقریب کن انتظامات سے گزر کر تکمیل پاتی ہے اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے. آپ خود ہی ماضی قریب میں کسی بھی تقریب کو یاد کر کے خود ہی ایک مضمون لکھ سکتے ہیں.

ایک مرد شادی کیوں کرتا ہے. میرا خیال ہے اس کا جواب بہت سادہ ہے. وہ اس لیئے شادی کرتا ہے کیونکہ اس کی امی چاہتی ہیں کہ وہ شادی کر لے. کم از کم میرے علم میں مردوں کی شادی کی کوئی دوسری وجہ ابھی تک نہیں آئی. شاید مرد واقعی اسی وجہ سے شادی کرتے ہیں یا شاید انہوں نے اصل وجہ کبھی کسی کو معلوم نہیں ہونے دی. البتہ عورتوں کی شادی کرنے کی مختلف وجوہات ہیں. جیسا کہ انٹر میں نمبر کم آنا، پڑھائی میں دل نہ لگنا، امی کی بیماری کے دنوں میں کوکنگ اچھی کر لینا. بس ویسے ہی فارغ ہونا، یا پھر اچانک سے اچھا رشتہ مل جانا، وغیرہ وغیرہ.
پاکستانی شادیوں میں اب آ کے جب سے اسراف کا بازار گرم ہوا ہے تو اکثر دلہا دلہن بھی خوش نظر آنے لگے ہیں ورنہ تو مجھے غیر شادی شدہ دنوں میں شادی کی تقریب اور عید قربان ایک جیسے ہی لگتے تھے. جس میں قربانی کے جانور کے علاوہ سب ہی پرجوش ہوتے.

پاکستانیوں میں شادی کے مختلف مسائل میں سے ایک مسئلہ شادی کی عمر کا بھی ہے. پاکستانی لڑکی پندرہ سال کی ہو جائے تو لوگ کہنا شروع کر دیتے کہ شادی کی عمر ہونے لگی ہے اور اٹھارہ کی ہو جائے تو سننے کو ملتا کہ شادی کی عمر نکل رہی ہے. بائیس کی ہو کر بھی شادی نہ ہو تو پتہ لگتا ہے عمر نکل چکی ہے اور اگر تیس تک بھی شادی نہ ہو تو لوگ کہتے بس گھر بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہو گئی.

شادی کو لے کر ایک بات جو ہمیں کوئی نہیں بتاتا وہ یہ ہے کہ”یہ ناری اپنی فطرت میں نہ آبی ہے نہ خاکی ہے” یہ شادی کرنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ اسے کیا بناتے ہیں. ہمارے ہاں شادیوں کے بعد مایوسی کا جو عنصر آتا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لڑکیوں میں شادی کا شوق خواتین مصنفوں کے ناول پڑھ کر آتا ہے جس کا ہیرو حقیقتاً کسی بھی غیر شادی شدہ لڑکی کو شادی کا سوچنے پر مجبور کر سکتا ہے. اور شادی شدہ عورت کو اپنے شوہر سے بدظن کروا سکتا ہے.
عام طور پر کسی نسل کی خوبیوں خامیوں کا پتہ لگانا ہو تو اس نسل کی ہر کلاس کا ایک نمونہ منتخب کر اس کو کنٹرولڈ حالات میں تجربات اور مشاہدات سے گزارا جاتا ہے. شوہروں کے معاملے میں آسانی یہ ہے کہ یہ سب ہی ایک جیسے ہوتے ہیں. صرف ایک کا مطالعہ بھی آپ کو شوہروں کی نفسیات سے مکمل آگاہ کر سکتا ہے. یقین نہ آئے تو دنیا کے کسی بھی ملک کی بیوی سے اس کے شوہر کی بابت دریافت کر لیں. شوہروں میں عجیب ترین بات یہ ہے کہ ان کو سیدھی بات سمجھانے کے لیئے الٹے طریقے اپنانے پڑتے ہیں جبکہ الٹی بات سیدھا ان کے دماغ میں گھس جاتی ہے. عورت دو جہان میں ایک شوہر مانگتی ہے. لوگ اسے اس کی وفا سمجھتے ہیں. حقیقتا یہ اس کی سہل پسندی ہے. وہ جانتی ہے ایک کو کتنی مشکل سے سیدھا کیا ہوتا ہے اس نے.

اکثر عورتوں کو گلہ ہوتا ہے کہ ہمارے شوہر ہماری سنتے نہیں. ان کا یہ گلہ محض ناشکری اور خود ترسی پر مبنی ہے. حالانکہ شوہر کسی کے بھی نہیں سنتے. اور ویسے بھی اگر شوہر واقعی سب کچھ سننا شروع کر دیں جو بیویاں بولتی ہیں تو شاید آدھی عورتیں ماں باپ کے گھر واپس چلی جائیں. لیکن دوسری طرف بعض عورتوں کو یہ بھی گمان ہوتا کہ ہمارے شوہر ہم سے کچھ نہیں چھپاتے. ان کے شوہر ان کی اسی سادگی پر مرتے ہیں.

تفنن برطرف لیکن کسی وقت پوری ذمے داری سے اس بات کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم شادی جیسی اہم سماجی اور جسمانی ضرورت کو اس قدر کٹھن بنا کے ہم نے اپنے معاشرے میں کن غلاظتوں اور کن مسائل کو جنم دے دیا ہے جن کا عفریت ہماری آنے والی نسلوں کو چاٹ جائے گا اس بارے میں ہم سوچیں گے تو نہیں لیکن ہماری نسلیں اس کا تاوان ضرور بھریں گی.

اللہ پاک نے قرآن میں مختلف مقامات پر جو دعائیں بتائی ہیں جو کہ مستند ہیں کیونکہ انبیاء کی دعائیں ہیں ان کو یکجا کر لیا جائے تو زندگی کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں جس سے پہلو تہی کی گئی ہو. انہیں دعاؤں میں ایک یہ بھی ہے:
اللھمہ ربنا ھب لنا من ازواجنا وذریاتناقرۃ اعین وا جعلنا للمتقین اماما

ویسے تو مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ آج کل کتنے ماں باپ بچوں کو قرآنی دعائیں سکھانے کا اہتمام کرتے ہیں لیکن اگر سکھائی بھی جائیں تو بلوغت کے بعد بھی بچوں کو یہ نہیں سکھایا جاتا کہ اس دعا کے ذریعے اللہ سے اپنے لیئے اچھا ساتھی طلب کریں. میں آج اپنے تمام قارئین سے جو کہ فی الحال شادی شدہ نہیں یہی درخواست کروں گی کہ اللہ سے اپنے لیئے ساتھی اسی دعا کے الفاظ میں مانگنا شروع کریں. ایک اچھے ساتھی کے ہونے سے دنیا بہت بہتر ہو جاتی ہے. اور ایک اچھا ساتھی ایسا دروازہ بن جاتا ہے جو نعمتوں کے کئی در کھول دیتا ہے. البتہ دوسری شادی کے خواہشمند اس دعا کی بجائے یہ دعا پڑھیں “رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر”

فیمینزم کے کمپلیکس اور میل شونزم سے متاثرہ اس معاشرے نے ایک خوبصورت رشتے کا چہرہ مسخ کر دیا ہے. مرد اور عورت کی اور اس رشتے کی بقاء اسی میں ہے کہ دونوں اپنے اپنے دائرہ کار کو سمجھیں اور ایک دوسرے پر حکومت کرنے کی کوشش کی بجائے ایک دوسرے کے دل پر اپنا اثر چھوڑنے کی کوشش کریں. اگر آپ شریعت کو حق مانتے ہیں تو پھر دونوں ایک دوسرے کے وہ سب حقوق تسلیم اور ادا کریں جو شریعت نے دے رکھے. اور اگر آپ لبرل ہیں تو پھر بھی ایک راہ چن کر اس کے مطابق ایک دوسرے کو اسپیس دیں. کیونکہ معاشرے کی بنیاد خاندان پر ہے. اور جب تک خاندانوں کی اصلاح نہیں ہو گی معاشرے اجتماعی طور پر اصلاح کی جانب نہیں آئیں گے.

سعدیہ سلیم بٹ، مکالمہ ڈاٹ کام

اپنا تبصرہ بھیجیں