“میں صبح سے بھوکا ہوں، بیروزگار، بیمار ہوں میری سب سے درخواست ہے کہ مجھے پانچ، دس یا پندرہ کراؤن (سویڈش کرنسی) دے دیں میں آپ کا شکر گزار ہونگا”۔
یہ الفاظ سویڈش زبان میں ٹرین کے اندر کھڑے ایک ہٹے کٹے، سلم سمارٹ شخص نے کہے، ٹرین میں موجود تمام لوگ نظریں جھکائے اپنے اپنے موبائل فون پر مصروف تھے، کسی نے اوپر دیکھنا گوارا نہ کیا، سوائے میرے اور ساتھ بیٹھی ایک سویڈش گوری کے۔
میں نے ایک نظر حیرانی سے اسے دیکھا اور سمجھ گیا کہ یہ کوئی نشئی قسم کا انسان ہے، سویڈن میں حکومت ہر شہری کو گھر اور کھانے کے پیسے دیتی ہے، لیکن نشیئوں سے ہاتھ کھینچ لیتی ہے، کیونکہ وہ کھانے والے پیسے بھی نشے میں اُڑا دیتے ہیں، حقیقت میں ایسے لوگ کسی بھی معاشرے پر بوجھ ہی ہوتے ہیں، اور لوگ انہیں اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔
گوری نے مائیکل نامی اس ڈیجیٹل فقیر سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس سویش ہے؟ فقیر نے ہاں میں جواب دیا اور اپنا موبائل نمبر بتا دیا، گوری نے اپنے سمارٹ فون میں سویش نامی ایپ میں وہ نمبر لکھا اور کچھ رقم اسے بھیج دی، جو فوراً ہی ٹوں ٹوں کی آواز کے میسیج سے اسکے بنک اکاؤنٹ میں پہنچ گئی۔ جب وہ ایپ میں رقم کا اندراج کر رہی تھی تو مائیکل صاحب نے اسے اپنے ٹوٹے ہوئے جوتے بھی دکھائے، اس نیت سے کہ شاید رقم میں کچھ اضافہ ہوجائے۔
سویڈن کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ڈیجیٹل کرنسی چلتی ہے، ہر شہری کے موبائل کی بیک سائیڈ پر دو تین کارڈ لگے ہوتے ہیں، جن میں ایک کریڈٹ کارڈ، ایک بس یا ٹرین کا کارڈ اور ایک ڈرائیونگ لائسنس یا آئی ڈی کارڈ ہوتا ہے، موبائل میں دو تین قسم کی پے منٹ والی ایپلی کیشنز ہوتی ہیں، جو کریڈٹ کارڈ کے متبادل ہوتی ہیں، ایسی ہی ایک ایپلی کیشن کا نام سویش ہے، جو ڈیجیٹل بنک آئی ڈی کے ساتھ چلتی ہے اور صرف موبائل نمبر لکھنے سے دوسرے شخص کا نام سامنے آجاتا ہے اور جو رقم بھی لکھی جائے وہ چشم وزدن میں دوسرے شخص کے بنک اکاؤنٹ میں پہنچ جاتی ہے، یہاں لوگ جیب میں پیسے نہیں رکھتے، حقیقت میں کرنسی نوٹوں کا رنگ کیا ہوتا ہے زیادہ تر لوگ اس بات سے بھی نابلد ہیں۔ ہر کام ڈیجیٹل ایپلی کیشنز اور کریڈٹ کارڈ سے ہوتا ہے۔
آپ نے وہ مثال سنی ہوگی کہ “جیسا دیس ویسا بھیس” بالکل ایسے ہی سویڈن میں موجود ٹھیلے والے، ڈونیشن لینے والے یا بھیک مانگنے والوں کے پاس بھی ڈیجیٹل ایپلی کیشنز یا چھوٹی پاکٹ سائز کریڈٹ کارڈ والی مشین آئی سیٹل ہوتی ہے، جہاں سے پیسے وصول کئیے جاتے ہیں۔ مساجد اور گرجا گھروں میں عام طور پر سویش موبائل نمبر یا سویش بار کوڈ والا کاغذ لگا ہوتا ہے جسے موبائل کیمرے سے سکین کر کے پیسے ڈونیٹ کر دئیے جاتے ہیں۔ تمام اقسام کے یوٹیلٹی بلز خودکار طریقے سے ہر ماہ بنک اکاؤنٹ سے خود ہی کٹ جاتے ہیں۔ تنخواہ بتیس سے پچاس فیصد تک ٹیکس کٹنے پر اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہوتی ہے، اور تنخواہ کا ایک بڑا حصہ پہلے ہفتے ہی یوٹیلٹی بلوں کی نذر ہوجاتا ہے، ملک کا سسٹم ایسا ہے کہ ہر شہری اچھے گھر میں رہتا ہے اور اچھی گاڑی رکھ سکتا ہے، دوسرے ممالک کے سیر سپاٹے پر جاسکتا ہے۔ بچے عموماً سکول میں پیسے لیکر نہیں جاتے، کیونکہ سکول کے اوقات کے دوران تمام کھانا پینا سکول کے ذمے ہوتا ہے اگر کبھی کبھار انہیں پیسوں کی ضرورت پڑ جائے تو والدین انہیں اپنا کریڈٹ کارڈ دے دیتے ہیں۔
برطانیہ کے بڑے اخبار گارڈین نے جون 2016 میں سویڈن ایک کیش لیس سوسائیٹی کے عنوان سے ایک آرٹیکل لکھا تھا، جس میں سویڈن کے سنٹرل بنک کے اعدادوشمار کوٹ کئے گئے تھے کہ 2015 کے سال میں پورے ملک میں صرف دو فیصد ترانزیکشنز کیش میں ہوئیں تھیں، جبکہ اٹھانوے فیصد پےمنٹس کریڈٹ کارڈز اور ایپلی کیشنز کے ذریعے کی گئیں۔ راقم نے خود سٹاک ہوم میں رہتے ہوئے پچھلے دس سال میں شاید ہی کوئی پے منٹ کیش میں کی ہوگی، گزشتہ کئی سالوں سے بسوں اور دوسرے ٹرانسپورٹ سسٹم میں کیش سے ٹکٹ خریدنا بند ہوا ہوا ہے، یہاں تک کہ بسوں کے اندر ڈرائیور سے آپ ٹکٹ خرید ہی نہیں سکتے، ٹکٹ خریدنے کے لئیے لوگ سٹیشن پر لگی ٹکٹ مشینیں استعمال کرتے ہیں اور کریڈٹ کارڈ سے پےمنٹ کرتے ہیں۔