280

اردو_نثر_میرے_نزدیک

خدائے ربِ جلیل نے انسان کو سلیقہِ گفتگو عنایت فرما کر ایسی مہربانی کی ہے جو کسی دوسری مخلوق کو مہیا نہیں اپنی اسی صلاحیت کے زریعے انسان اپنے خیالات و جزبات دوسروں تک پہنچاتا ہے خیالات کے اظہار کی دو صورتیں مقرر کی گئی ہیں (نظم اور نثر)

نثری اظہار ایک عالمگیر مخزن ہے جبکہ اسے کے مقابل نظم مستقل فن ہے ہماری زبان میں بھی دوسری زبانوں کے طرزِ عمل پر مختلف اصناف کےزریعے ان دونوں اصناف کا دامن وسیع تر ہوتا جارہا ہےآج ہمیں اردو ادب کا سرمایہ جو نظر آرہا ہے وہ فقط گزشتہ دو صدیوں پر محیط ہے وگر نہ یوں تو اردو زبان کا پہلا رسالہ جہانگیر اشرف سمنانی نے( 1308) میں تحریر کیا جس میں اخلاقی مضامین شامل تھے اس کے بعد خواجہ بندہ نواز گیسو دراز نے معراج العاشقین تحریر کی اور بعد ازاں جل ترنگ شرحِ مرغوب سب رس وغیرہ منظرِ عامہ پر آئیں لیکن اس صدی کی سب سے مدبر و معروف ترین کتاب سب رس قرار پائی جسے ملاوجہی نے تحریر کیا تھا یہ کتاب اردو نثر کے حوالے سے ارتقاء کی پہلی اینٹ ثابت ہوئی –

پھر اردو نثر کی عمارت رفتہ رفتہ عظیم الشان طرز پر اپنی منازل کو چھونے لگی ہر چند کی تصوف پر لکھی گئی کتاب ہے مگر اس کا اسلوب افسانوی ہے اس کے بعد اٹھارہویں صدی اردو نثر کو باقاعدہ طور پر شرعی و معاشرتی مسائل سے متعلق مباحثوں میں مستعمل لایا گیا جس سے اردو نثر کا دامن عریض ہونے لگا اردو نثر کے ارتقاء میں شمالیِ ہند کے مصنفین کا بھی کردار ہے ان تمام لوگوں میں فضلی کا نام سرِ فہرست ہے جنہوں نے وہ مجلس و کربل کتھا جیسی کتابیں تحریر کیں ہر چند کی کتب فارسی ادب کے اردو تراجم ہیں لیکن اپنے نثری اسلوب کے متعلق منفرد و مختلف ہے۔

اس دور میں میر عطا حسین نے ایک کتاب نوطرزِ مرصع لکھی اور یہ کتاب اپنی مثال آپ ٹھہری انسیوں صدی میں اردو نثر میں انقلابی تبدیلیاں آئیں بطورِ تمثیل یہ کہ داستان کو فرضی قصوں اور کہانیوں سے نکال کر معاشرتی اصلاح اور زندگی سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی اور اس زمانے میں وہ داستانیں لکھی گئیں ان میں باغ و بہار توتا کہانی حسنِ عشق وغیرہ شامل ہیں جوکہ آج کے روز تک یادرگار ہیں۔

اس کے بعد معاشرتی اصلاح کے پیشِ نظر داستان کے طویل قصوں کی متبادل ناول متعارف کروائی گئی اور ڈپٹی نزیر احمد اردو کے پہلے ناول نگار قرار پائے جبکہ عبداحلیم شرر اپنی تاریخی ناولوں کی وجہ سے مقبول ہوئے آگے چل کر ناول کی طوالت سے بچنے کے لیئے افسانے کا آغاز ہوا اور منشی پریم چند پہلے افسانی نگار کی چیثیت کے طور پر سامنے آئے پریم چند نے بنامِ انمول رتن پہلا اردو افسانہ تحریر کیا بعد ازاں اردو افسانے کی عوافت میں بڑے ہی نہیں بہت بڑے نام سامنے آئے جن میں کرشن چندر راجندر سنگھ بیدی سعادت حسین منٹو عصمت چغتائی و دیگر شامل ہیں۔

برِصغیر میں ترقی پسند تحریر کی آمد سے اردو ناول اور افسانہ دونوں شعبوں میں مثبت تبدیلیاں واقع ہوئیں اور اس زمانے میں افسانہ نگاری کے متعلق سے مختلف تجربات بھی ہوئے اور علامتی تجریدی اور تمثیلی افسانے لکھے گئے۔

ناول اور افسانے کے ساتھ ساتھ ایک اور مصنف جو اردو زبان سے مقبول ہوئی وہ ڈراما نگاری کا فن تھا اس کا آغاز امانت لکھنوی کے ڈرامے اندر سبھا سے ہوا اور پھر بعد میں حسینی ظریف خادم حسین افسوس امام بخش وغیرہ نے ڈرامے لکھے اور آج تک یہ فن مختلف اشکالوں میں ہمارے ہاں موجود ہے۔

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں