Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
240

پنجاب کی باغی بیوروکریسی۔

پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس کے حصہ میں جو بیوروکریسی آئی وہ’’برٹش ٹرینڈ‘‘ تھی، لاجواب لوگ، بااصول، باکردار، محنتی، دیانتدار، قواعد و ضوابط سے سرموانحراف نہ کرنے والے اپ رائٹ سول سرونٹس جن میں سے بےشمار لیجنڈز کے درجہ کو پہنچے۔ پھر یہ لوگ بتدریج فیڈ آئوٹ یعنی ریٹائر ہوتے چلے گئے جن کا خلا ان کے تربیت اور صحبت یافتہ لوگوں نے پُرکیا۔ 

یہ اپنے سینئرز جیسے تو نہیں البتہ ان کا پرتو، ان کا عکس، سایہ یا ریپلیکا ضرور تھے، پھر جب یہ لوگ بھی ریٹائر ہوگئے تو ان کے تربیت و صحبت یافتہ بیوروکریٹ منظر عام پر ابھرے جو اپنے سینئرز کا چربہ تھے اور یوں بتدریج پچاس سال کے لگ بھگ ہم بیوروکریٹس کی اس نسل تک آ پہنچے جو چشم بددور ’’خالص پاکستانی‘‘ تھے۔ یہی واردات سیاسی لیڈر شپ کے ساتھ ہوئی کہ اول اول ٹاپ لیڈر شپ بھی برٹش ٹرینڈ تھی جو گھٹتے گھٹتے گھستے گھستے نواز شریفوں تک آپہنچی یعنی’’دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی‘‘پھر سب کچھ اس آگ میں بھسم ہوتا چلا گیا۔ 
قائد اعظم کی جگہ قائد اعظم ثانی اور تب کے بیوروکریٹس کی جگہ احد چیمہ اور فواد حسن فواد جیسے سول سرونٹس یعنی سیاست اور سول سروس دونوں نے مل جل کر ریاستی ڈھانچے کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا جس کے نتیجہ میں’’عہد کم ظرف‘‘نے پوری قوم کو لپیٹ میں لے لیا تو شاعر چیخ اٹھا؎
زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کے لئے
عہد کم ظرف کی ہر بات گوارا کرلیں 
سیاسی حکمرانوں نے سول سرونٹس کو ذاتی ملازم سمجھ لیا اور ان کی اکثریت نے بھی غلط بخشیوں اور دیہاڑیوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے ہنسی خوشی یہ کردار قبول کرلیا اور’’کک باکسنگ کلچر‘‘ نے پروان چڑھ کر پاکستان کی چولیں ہلا دیں۔ نوبت یہاں تک آپہنچی کہ بیوروکریسی بھی ٹریڈ یونین ازم کے رنگ میں رنگی گئی جس کا شاندار اور شرمناک مظاہرہ پنجاب میں دیکھنے کو ملا جس کے ڈراپ سین کا انتظار ہے۔
یہ سب باتیں اس خبر پہ یاد آئیں جس کے مطابق پنجاب بیوروکریسی کے ایک قابل ذکر حصہ نے’’نومور‘‘کا نعرہ مستانہ بلند کردیا ہے یعنی اب صرف زبانی کلامی نہیں بلکہ صرف تحریری احکامات ہی مانے جائیں گے۔ باضمیر افسران نے اپنے اجلاسوں میں واضح کردیا ہے کہ اب کوئی بھی سول سرونٹس کا استحصال نہیں کرسکے گا اور نہ ان کے ساتھ ناانصافی روا رکھی جاسکے گی۔ اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ صوبہ کا وزیر اعلیٰ ہو یا کوئی عام وزیر، جس نے بھی کوئی حکم دینا ہوگا، تحریری طور پر دے گا تو عملدرآمد ہوگا۔ اس اہم اجلاس میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب عمر رسول سمیت دیگر باضمیر افسران موجود تھے۔
یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ صرف اور صرف میرٹ کو ہی مدنظر رکھا جائے گا۔ موراوور کے طور پر یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ ڈیوٹی بھی قانون کے تحت 8گھنٹے ہوگی۔ شام 4بجے تک کام مکمل کرلینے کے بعد نہ کوئی میٹنگ ہوگی اور نہ کوئی دوسرا سرکاری کام۔ ہم نے بہت کچھ بھگت لیا لیکن اعلیٰ افسران نے کبھی ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب عمر رسول نے بتایا کہ ہم لوگوں نے’’نومور‘‘ کے بیج اپنی مرضی سے لگائے ہیں۔ اب تمام کام اپنے پروسیجرز کے مطابق ہوں گے۔ ہم نہ ہڑتالیوں کے ساتھ ہیں نہ تالہ بندیوں کے حق میں۔ ہم کسی بھی افسر کے خلاف غیر قانونی کارروائی کو مسترد کرتے ہیں، اگر کسی کے خلاف کرپشن کے ثبوت ہیں تو سامنے لاکر گرفتار کیا جائے۔ عمر رسول نے کہا کہ پہلے کوئی مرد کا بچہ پنجاب میں نہیں تھا اس لئے بیوروکریسی نے جس سے جو چاہا کروالیا۔مختصر یہ کہ ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ ہوچکا۔ بیوروکریسی ’’باغی‘‘ ہوچکی لیکن سمجھ نہیں آرہی’’باغی‘‘ کون ہے؟ بیوروکریسی کا وہ حصہ جو حکمرانوں کے اشارے پر ریاست سے بغاوت کرگیا یا وہ حصہ جو سیاسی غلط کاریوں سے بغاوت کررہا ہے تو میرا خیال ہے ہر باضمیر، بااصول شخص کا وزن ان کے پلڑے میں ہونا چاہئے جو میرٹ کے حق اور سکھا شاہی کے خلاف جدوجہد میں شریک ہیں۔
’’سپیڈ‘‘ کے رسیا حکمران بھی یہ بات دھیان میں رکھیں کہ’’ورکنگ آورز‘‘ کا احترام انسان کی اجتماعی دانش و تجربہ کا نتیجہ ہے۔ بےتکے بےلگام’’ورکنگ آورز‘‘ بالآخر بےنتیجہ ثابت ہوتے ہیں بلکہ سچ پوچھیں تو کائونٹرProductiveکیونکہ انسانوں کی پروفیشنل ہی نہیں پرسنل زندگی بھی ہوتی ہے جس کا احترام کیا جانا لازمی ہے بشرطیکہ کوئی ایمرجنسی نہ ہو سو قوانین ہی نہیں قدرت کے قوانین کا احترام بھی سیکھیں کہ اندھا دھندکام کے نتیجہ میں تو جانور بیکار ہوجاتے ہیں، یہ تو ذہنی مشقت کرنے والے جاندار ہیں جن کے پیچھے فیملیز اور ان کے مسائل بھی ہوتے ہیں۔امید ہے شہباز شریف’’نئے رول‘‘ کے لئے خود میں’’نئی تبدیلیاں‘‘ بھی لائیں گے۔ دعا ہے کہ بیوروکریسی سیاسی آلائشوں سے پاک ہو کر نئے سرے سے نئے سفر کا آغاز کرسکے۔’’انارکسٹوں‘‘کو اپنے’’باغی بھائیوں‘‘ کے ساتھ مل کر اپنی باعزت بقا کی جدوجہد میں ان کا ہاتھ بٹانا چاہئے کہ وہ کسی فرد یا چند افراد کے نہیں۔ عوام کے سہولت کار ہیں۔ ایسا نہ ہوا تو سول سروس مزید رسوا ہوجائے گی جو کسی کے لئے بھی نیک شگون نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں