گزشتہ دنوں پِکاڈلی جاتے ہُوئے سینٹرل لائین ٹرین پر سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ لندن اندرون شہر جانے کے لئے گاڑی کا استعمال کافی مُشکل ہے، اندرون شہر ایسا ہی ہے جیسا آپ پُرانے لاہور یا کسی اور گُنجان شہر میں جائیں تو آپ کو رش مِلے گا ، پارکنگ کی جگہ مِلنی بُہت مُشکل ہو جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اِسلئے بہترین آپشن یہی ہوتا ہے کہ آپ اپنی کار پر جانے کی بجائے ٹرین پر جائیں اور تسلی سے اپنا کام کر کے بغیر کسی پریشانی کے واپس آئیں۔
دوران سفر کا احوال کچھ یوں ہے کہ میری سیٹ کے سامنے ایک بنگلہ دیشی بھائی قُرآنِ پاک کی تلاوت کر رہے تھے اور اپنے دائیں بائیں سے بالکل بے نیاز تھے، ایک حجاب والی مُسلم خاتُون بھی بیٹھی تھی، اور ایک گورا اپنی ساتھی سے گپ شپ کررہا تھا۔ جبکہ سامنے ایک لڑکا اور لڑکی آپس میں پیار و مُحبت کررہے تھے۔ اِس سارے ماحول میں نہ تو گورے کو ہمارے بنگلہ دیشی بھائی کے قُرآنِ پڑھنے سے کُوئی مسئلہ تھا نہ ہماری حجاب والی بہن کو کِسی گوری کے کم لباس سے کُوئی مسئلہ تھا اور نہ ہی اُس نوجوان جوڑے کی آپسی حرکات سے میرے ایمان کو کُوئی خطرہ تھا۔
یہ سب دیکھتے ہُوئے ذہن میں جو فوری تاثر اُبھرا وہ ہمارے اپنے پیارے مُلک پاکستان میں عدم برداشت کا تھا۔ کیا کبھی ہم بھی اِس قابل ہو سکیں گے کہ لوگوں کی حرکات و سکنات اور لباس و رہن سہن کو دیکھ کر زیادہ نہ سہی محض برداشت کرنا ہی سیکھ سکیں ؟
کیا برطانیہ گوروں یعنی عیسائیوں کا مُلک نہیں ہے ؟ پِھر آخر کِس طرح سے وُہ اپنے لندن جیسے شہر کا مئیر ایک پاکستانی نژاد مُسلمان کو ووٹ دے کر بننے دیتے ہیں بلکہ اُس کے مُقابلے میں گولڈ سمتھ فیملی کے ممبر جو اُنھیں زیادہ سُوٹ کرتا تھا ( ہماری یہودی تھیوری کے مُطابق ) اُس کے بجائے صادق خان کو ترجیح دیتے ہیں ۔
ذرا سوچئے کیا پاکستان میں ایسا مُمکن ہے ؟
اب جلد ہی برطانیہ میں بلدیاتی انتخابات ہونے کو ہیں جس میں کُوئی 4300 کُل اُمیدواروں میں تقریباً 500 کے قریب مُسلمان ہیں ۔ اور ظاہر ہے کافی سارے اُمیدوار مُنتخب بھی ہو جائیں گے ۔ یہ ہوتی ہے برداشت اور مذہبی رواداری ۔
کیا یہ سب کبھی وطنِ عزیز میں دیکھنے کو مِلے گی ؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمیں ہر بڑی سیٹ پر مُسلمان ہی چاہئیے اور ہر بڑا کیا اور چھوٹا کیا مُسلمان ہی وہاں پر عُہدے دار ہے تو بھی ہم نے کیا بہتری دیکھی ؟ ہر ادارہ زوال پذیر ہی تو ہے ۔
ہم یہ کب سمجھ پائیں گے کہ مُلک چلانا اور مذہب پر سختی سے پیروکار ہونا دو الگ الگ معاملات ہیں ۔ ایک روایت کے مُطابق حضرت علی رضی اللہ عنہا نے فرمایا تھا کہ کُفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن نااِنصافی کا نہیں ۔ تو کیا اقلیتوں کو اُوپر نہ اُبھرنے دینا یا اُن کو کوٹہ بیس سسٹم میں دبا کر رکھنا کہاں تک ٹھیک ہے ؟
جو معاملات اور سُلوک ہم اقلیتوں کے ساتھ کرتے ہیں اگر وُہی سُلوک دُوسرے مذاہب کے ممالک مُسلمانوں کے ساتھ کریں تو کیسا لگے گا ؟
پچھلے دِنوں دُبئی میں ایک ہِندوؤں کے مندر کا افتتاح کیا ہُوا سب کو آگ سی لگ گئی کہ عرب میں مندر ، آہ ۔۔۔۔ بھئی پہلے تو یہ سمجھیں کہ دُبئی عرب نہیں ہے جِس سینس میں آپ کہہ رہے ہیں اور دُوسرا اِس منطق کی رُو سے تو مُسلمان ممالک میں چرچ اور مندر نہیں بننے چاہئیں اور دیگر مذاہب کے ممالک میں مساجد بنانے پر پابندی لگ جائے ۔ ظاہر ایسا نہیں ہے کیونکہ دیگر ممالک میں لوگ چاہے جتنے بھی اندر سے مُتعصب ہُوں ( حالانکہ اُن متعصب افراد کی تعداد بُہت کم ہے ) وُہ بڑی تعداد میں یا اجتماعی طور پر اِس قدر چھوٹی ذہنیت نہیں رکھتے ۔
ویٹی کن سٹی جو عیسائیوں کا مکہ مدینہ ہے۔وہاں کوئی مسجد نہیں ہے اور کوئی مسلمان بھی رہائش پذیر نہیں ہے لیکن شہر روم میں مساجد بھی ہیں اور مسلمان بھی۔ دوسری طرف ہمارے مکہ و مدینہ میں بھی غیرمسلم کی اینٹری بند ہے لیکن باقی ملک میں غیر ممالک سے آئے ہو غیر مسلم بھی رہائش پذیر ہیں۔تبدیلیوں کی جو لہر چل پڑی ہے۔ شاید کچھ عرصے بعد؟
ایک طرف ہم پڑھتے ہیں کہ نبی(ص) نے غیرمسلموں کو اپنی عبادت گاہوں میں عبادتیں کرنے کی پوری آزادی دی تھی اور اُن سے تاقیامت اُن کی عبادت گاہوں کی حفاظت کا وعدہ کیا تھا۔احادیث موجود ہیں۔کچھ مفسرین کے مطابق فتح مکہ کے بعد نبی(ص) نے صرف مکہ شہر کی حدود میں غیرمسلم کے داخلے کی پابندی لگائی تھی۔کچھ مفسرین کے مطابق یہ پابندی پورے عرب کے لئے تھی۔جہاں تک میرا خیال ہے یہ پابندی صرف مکہ کے لئے تھی؟مدینہ میں تو یہودی و عیسائی نبی(ص) کی حیات مبارکہ میں بھی آباد تھے۔بہرحال آج کی صورتحال کے حساب سے مکہ و مدینہ ان دونوں شہروں میں غیرمسلم کی اینٹری کا ناں ہونا ٹھیک ہے لیکن باقی اب آپ آگے کافی تبدیلیاں بھی دیکھیں گے۔
بیک ٹو دا ٹاپک۔ہمارے ہاں ابھی تک لندن کے شہریوں کی طرح برادشت و مذھبی رواداری پتہ نہیں کب پیدا ہو گی؟اس تحریر کا مقصد عدم برادشت کی طرف توجہ دلانا ہی ہے۔آپ سیکولرازم کا ٹاپک یا مذہبی بحث کمنٹس میں چھیڑنا چاھتے ہیں تو آپ کی مرضی۔۔
یہ تمام باتیں سوچنے والی ہیں اور ہمیں کبھی نہ کبھی تو اپنے آپ کو یا اپنی سوچ کو بدلنا ہی ہوگا۔