پتا نہیں ہم لوگ پردیس میں اپنے ملک کی قدر زیادہ کرتے ہیں یا یہاں انصاف کا نظام دیکھ کر خود کو پاکستانی کہتے ہوئے شرم آتی ہے اسی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی قلم اٹھ جاتا ہے آخر کب تک ہماری اعوام جھوٹے نعروں پہ امیدیں باندھتی رہے گی کبھی مشرف دور میں پڑھے لکھے پنجاب کا نعرہ سنتے سنتے بچوں کے اچھے مستقبل کے خواب سجا لیتے تھے پھر ہم خادم اعلی کا پنجاب کو پیرس بنانے کا نعرہ سن کے دل میں لڈو پھوٹ جاتے تھے کہ پنجاب پیرس بننے جارہا ہے تو ہماری اعوام اپنی ساری جمع پونجی سے لاہور میں پلاٹ لینے پہ لگ جاتی تھی کہ پیرس بننے سے پہلے ہی وہاں گھر بنا لیں وہاں کئی پلاٹ دس دس بار بک چکے ہوتے تو لوگوں کی ساری عمر کی کی کمائی پراپرٹی والے ہڑپ کر جاتے اور یوں سب خواب جب چکنا چور ہو جاتے تو دوبارہ خواب دیکھنے سے ڈر لگنے لگ جاتا اور لوگ پاکستان چھوڑنے کو تر جیع دینے لگے اور وہی پیسا ایجنٹوں کو دے کر کشتیوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرتے اور نجانے کتنی کشتیاں ڈوب جاتیں اور لوگوں کا کوئی پر سان حال نہیں ہوتا اور ڈوب کر مر جاتے پھر پی پی نے روٹی ،کپڑا مکان کا نعرہ لگا کے حکومت بنائی تو اعوام کو اور دنیا میں دہشت گرد بنا دیا گیا رحمان ملک باہر کے ملکوں میں اپنی اچھائی ثابت کرتے کرتے انگریزوں کو یہ بتا گئے کہ ہمارے ہزاروں لوگ غیر قانونی آپکے ملکوں میں رہتے ہیں انھوں نے چوہا مار مہم شروع کردی اور جہازوں کے جہاز بھر کے غریب لوگوں کو ڈپورٹ کرنا شروع کردیا اور یوں لوگوں کے لاکھوں روپے بھر کر آنے والے غریبوں کی روزی چھین لی گئی جسکا درد صرف وہ لوگ جان سکتے ہیں جنھوں نے ادھار لے کر یا گھر بیچ کر ایک روشن مستقبل کی خاطر جان جوکھوں میں ڈال کر اپنے بچوں جو یورپ بھیجا تھا اب آتے ہیں تبدیلی سرکا ر کا نعرہ کہ لوگوں کو انصاف دیا جائے گااور امیر غریب کیلئے ایک قانون ہوگا وہ بزدار صاحب مسلط کر دیے گئے انکی سادگی کے قصے کبھی سوکھے نلکے کے ساتھ تصویر تو کبھی دو چار دیہاتی پٹکے باندھ کے وہ سوشل میڈیا پہ واہ واہ ہورہی ہے کہ سادگی کا کمال ہے اللہ کے بندو اگر اتنا ہی سادہ یا شریف تھا تو بیعت المال کا وزیر بنا دیتے پنجاب کے لوگوں کو تو انصاف چاہئے تھا ،تعلیم اور سب سے زیادہ اپنی بگڑی ہوئی پولیس ٹھیک کرنی تھی جو کرپشن سے لت پت ہے اور روز جیلی مقابلوں میں اعوام کا قتل کررہی ہے کبھی ماڈل ٹاون تو کبھی سانحہ ساہیوال جیسا واقعہ بنا کر پنجاب پولیس قاتل بن جاتی ہے بزدار صاحب وزیراعلی (پاکپتن شریف) کچھ بھی نہیں کریں گے اور نہ ہی اعوام کو انصاف دیں گے جو وزیراعظم آتا ہے پیسا اکٹھا کرنے لگ جاتا ہے کہ خزانہ خالی پڑا ہے جبکہ دوسری جانب پاکستانیوں کا پیسا دنیا بھر کے ملکوں میں بنک ٹھاٹھیں مار رہے ہیں تو کیا مجبوری ہے کہ کسی کی اتنی جرت نہیں ہوتی کہ پیسا واپس لا سکیں لیکن الیکشن کے ٹائم پہ ہر پارٹی یہ نعرہ لگا کر آتی ہے کہ بس ہم ہی لُوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے لیکن حکومت میں آتے ہی سب بھول جاتے ہیں کہ اعوام سے کیا وعدے کر کے آئے تھے بس امیر جج کر لیتے ہیں تو وہ چھوٹ جاتے ہیں اور پھر ڈیل کر لیتے ہیں تو پیسا پچا جاتے ہیں آخر کب تک یہ بلی چوہے کا کھیل چلتا رہے گا اور اعوام کو بے وقوف بنایا جاتا رہے گا اگر سانحہ ساہیوال کا انصاف نہ ہوا تو قوم بھول جائے کہ نیا پاکستان کبھی بن پائے گا بلکہ موجود پاکستان بھی افغانستان بن جائے گا ۔وزیراعظم صاحب کا نمل میں خطاب لوگ امید لگائے بیٹھے تھے کہ سانحہ ساہیوال پہ بات کرکے نئے پاکستان کی بنیاد رکھیں گے لیکن وزیراعظم نے وہی پرانی تقریر دہرا دی جو وہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے کرتے تھے وزیراعظم صاحب بھول گئے کہ سانحہ ساہیوال پہ انصاف نہ کیا تو ماڈل ٹاون کی طرح یہ آپکا پیچھا نہیں چھوڑے گا اپنی اپنی رائے ہوتی ہے مجھے بزدار سے کوئی امید نہیں کہ وہ اس صوبے کوسنبھال سکے ۔
322