کسی بھی معاشرے کو فلاحی اور ترقی یافتہ بنانے کے لیے مسائل کی درست نشاندہی از حد ضروری ہے۔جس طرح کسی بھی مرض کا علاج کرنے کے لیے بنیادی ضرورت مرض کی بروقت اور درست تشخیص ہے۔بالکل اسی طرح معاشرے میں موجود وہ وجوہات جو فلاح اور ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہیں ۔ان وجوہات کا تعین اور اس کے بعد تدارک کاعمل کامیاب ہو سکتا ہے۔مگر افسوس سماج کو سدھارنے کے دعویدار بے شمار ہیں ۔مگر اکثریت اپنے دعووں کو حقیقت بنانے میں یکسر ناکام نظر آتی ہے۔ہمارا معاشرہ تیزی سے تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ترقی یافتہ معاشروں اور ہمارے معاشرے کے درمیان صدیوں کی خلیج حائل ہے۔ غالب نے کیا خوب کہا۔
ہمارے معاشرے میں چارہ ساز اور غم گسار ناپید ہو چکے ۔البتہ نصیحت کرنے والوں کی یہاں کوئی کمی نہیں ۔ہر شخص دوسرے کو نصیحت کرنے میں سبقت لے جانا چاہتا ہے۔سماج کے حقیقی مسائل کا تعین از حد ضروری ہے ۔مسائل کی وجوہات کا ادراک کرنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ۔فقط دل میں محبت گداز نرم دلی اور درد دل کی ضرورت ہے۔
انسان جب تلک دوسرے انسان کے دکھ اور غم کو اپنے دل میں محسوس نہیں کرے گا۔تب تک وہ کسی کا چارہ گر اور غم گسار نہیں بن سکتا۔ہمارا سماج کیوں فلاحی اور ترقی یافتہ نہیں ؟ کبھی غور کیا کہ آخر کیوں ؟ ہمارا معاشرہ تیزی سے تنزلی کا شکار ہے۔ہمارے معاشرے کو بہتری کی جانب محو سفر ہونے کے لیے بنیادی ضرورت کیا ہے؟
بنیادی ضرورت ہے معاشرے میں موجود افراد کی اخلاقی تربیت کی ۔مغرب کےترقی یافتہ معاشرے کی برائیاں بیان کرنے سے ہمارا معاشرہ ترقی یافتہ نہیں ہوگا۔یہ بات اب ہم کو مان لینی چاہیے ۔مغرب کے ترقی یافتہ سماج پر تنقید کر کے اور ان کی اخلاقی تربیت اور پختگی کو نظر انداز کر کے ہم نے کیا حاصل کیا؟فقط اتنا کہنے سے کہ مغرب نے اسلام کے اصول اور اخلاقی قاعدے اپنا کر ترقی اور فلاح حاصل کی ۔مغربی معاشرے اسلام کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر کامیاب ہیں ۔یہ بات بیان کرتے وقت اک عجیب سا تکبر اور احساس تفاخر ہمارے معاشرے کے رہنماوں کے چہرے پر عیاں ہوتا ہے۔مگر افسوس رہنمائی کے دعویدار ان اخلاقی اقدار کو ہمارے معاشرے میں رائج کرنے کے لیے عملی طور پر کچھ بھی کرتے نظر نہیں آتے۔کسی مقصد کے لیے چند ہزار افراد یکسوئی کے ساتھ کوشش کریں ،تو سماج میں انقلاب آجاتا ہے ۔پورا معاشرہ تیزی سے تبدیل ہوجاتا ہے۔آخر کیوں؟ رائے ونڈ کا تبلیغی اجتماع ہو یا پھر دعوت اسلامی کا سنتوں بھرا اجتماع ۔جماعت اسلامی کے اجتماع جمیعت علماء اسلام اور دیگر دینی جماعتوں کے اجتماعات کے علاوہ شیعہ مسلک کے اجتماع بھی منعقد ہوتے رہتے ہیں ۔تمام اجتماع منعقد کرنے والی جماعتیں ان سب اجتماعات کا مقصد سماج اور انسانوں کی فلاح بیان کرتی ہیں ۔مگر زمینی حقائق سالوں سے ان کوششوں کا منہ چڑاتے نظر آ رہے ہیں ۔
ہمارے معاشرے میں رتی برابر تبدیلی آنے کا نام نہیں لے رہی۔لاکھوں کا ہجوم جمع ہوتا ہے مقررین کی شعلہ بیانی سے محظوظ ہو کر اپنے اپنے گھروں میں واپس آجاتا ہے۔داعی حضرات مگر غور کرنے کے لیے تیار نہیں ۔سماج اخلاقیات سے عاری ہوتا جا رہا ہے۔دنیا میں موجود ہر معاشرتی برائی کا ہم شکار ہیں ۔مگر کوئی چارہ گر اس مرض کی دوا تجویز کرنے کے تیار نہیں ۔انسانوں سے محبت نرم دلی اور رحمدلی کی تلقین خطبات میں نہایت کم ہوتی ہے۔فروعی مسائل جن کا معاشرے سے دور تک کوئی واسطہ نہیں انہی پر الفاظ کی جگالی کی جا رہی ہے۔دین کے راستے میں خرچ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے ۔وہ بھی اپنے اپنے مسلک کے مدارس اور مساجد کے لیے۔بریلوی مکتبہ فکر کے پیروکار محفل نعت اور عمرے کی ٹکٹیں بانٹ کر اپنی آخرت سنوارنے میں مصروف ہیں ۔تبلیغی جماعت والے سہ روزے چلے اور چار ماہ کے دورے کر کے فلاح کی تلاش میں مصروف ہیں ۔شیعہ حضرات محرم اور صفر کے دو ماہ میں عزاداری کر کے اپنے فرائض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں ۔جبکہ معاشرہ کے اخلاقی انحطاط میں کوئی کمی نظر نہیں آتی۔جھوٹ رشوت خوری ملاوٹ ذخیرہ اندوزی اقربا پروری ناجائز منافع خوری دوسروں کی حق تلفی کا چلن عام تھا اور اب بھی عام ہے ۔مستقبل میں بھی ان برائیوں میں کمی کی صورت نظر نہیں آتی ۔محبت کی جگہ نفرت ۔سچ کی بجائے جھوٹ رحم دلی کی جگہ سنگدلی کا راج ہے ۔
ملاوٹ کے ذریعے ناقص اشیاء کی فروخت کے ذریعے معاشرے کو لاتعداد بیماریوں کا شکار کرنے والے بھی اپنے عمل کو غلط ماننے کے لیے تیار نہیں ۔اقرارالحسن نے اپنے پروگرام میں مرغی کی انتڑیوں اور غلاظت سے کوکنگ آئل تیار کرنے والی فیکٹری کے مالکان کو سکرین پر دکھایا تو روح کانپ اٹھی ۔کیونکہ دونوں مالکان سفید ریش حلیے سے انتہائی پرہیزگار نظر آرہے تھے۔اور نہایت ہٹ دھرمی سے بات کر رہے تھے ۔ان کو اپنی غلطی کا ہر گز احساس نہیں تھا۔معاشرے کی بنیادی ضرورت افراد کی اخلاقیات کو بہتر بنانا اور ان کو دولت کمانے کے لیے جائز ذرائع کا استعمال کرنے کی ترغیب دینا ہے ۔مگر اس جانب کوئی ترغیب اور تلقین کرتا نظر نہیں آتا۔جنت کا حصول حلیے بدلنے سے ممکن نہیں ۔اس کے لیے افراد کے باطن کو صاف کرنا ضروری ہے۔
نتیجے کے طور پر یہ معاشرے کو صرف عمرہ کرنے کی فضیلت بیان کر کے کثیر تعداد کو معاشرے کی بدحالی دور کرنے والے اقدامات سے دور کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔حقوق العباد کی اہمیت معاشرے کی فلاح و ترقی کے لیے بنیادی ضرورت ہے۔مگر حقوق العباد کی ترغیب دینے والے مبلغین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ۔سڑکوں پر وائپر لگانے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔سردی کی یخ بستہ راتوں میں معصوم ننھے بچے گرم انڈے فروخت کرتے نظر آتے ہیں ۔غربت ایمان کو کھا جاتی ہے ۔مگر غربت کا خاتمہ ہمارے سماج کی ترجیحات میں شامل نہیں ۔آخر کیوں ہمارا معاشرہ غربت کے عفریت کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔پھل کھانا غریب کے بچوں کے لیے خواب بن چکا۔ایثار ختم ہوتا جا رہا ہے۔کب تک ہم اپنی درست ترجیحات کا تعین نہیں کریں گے۔اور لایعنی مسائل پر مناظرے کرنے میں اپنی توانائیاں ضائع کرتے رہیں گے۔ (مکالمہ ڈاٹ کام)
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}