مالٹا کی رنگینیوں میں اللہ کا خوف محسوس ہونا اور مسجد کی تلاش شروع کرنے سے ایک بات پکی ہوگئی کہ اللہ مجھ گنہگار سے بہت محبت کرتا ہے اور سیدھی راہ کی طرف میری رہنمائی کرنا چاہتا ہے۔ ساڑھے چار لاکھ آبادی والے اس جزیرہ نما ملک میں مسلمانوں کی تعداد چند ہزار ہے، جبکہ اسکا رقبہ 316 مربع کلومیٹر ہے، دو سو سال تک یہاں عرب مسلمانوں نے حکومت کی ہوئی ہے لیکن بعد کے دور میں عیسائیت نے یہاں سے اسلام کا نام ونشان مٹا دیا تھا، ابھی بھی گلیوں اور جگہوں کے نام عربی زبان میں موجود ہیں۔
گوگل میپس کی مدد سے مسجد الفتح کا ایڈریس ڈھونڈا گیا اور تقریباً ایک گھنٹے کے بس کے سفر کے بعد ہم مسجد کے نزدیک پہنچ ہی گئے۔ آٹھ سو میٹر پیدل چلنے کے دوران مالٹا کے پولیس ہیڈکواٹر کے ساتھ سے گزر کر منسٹری آف ایجوکیشن کے سنسان گیٹ کے اندر داخل ہوئے، یورپ میں رہتے ہوئے اس بات کا اندازہ تو پہلے سے ہی تھا کہ مسجد عام سی عمارت ہی ہوگئی جس میں مینار نام کی کوئی چیز ہونا مشکل ہوتا ہے۔
پرانی عمارتوں کے ایک سلسلے کے شروع میں مریم کا خوبصورت مجسمہ نظر آیا، جس سے شک محسوس ہوا کہ کہیں چاچا گوگل ہمیں چرچ کی طرف تو لیکر نہیں جارہا لیکن تھوڑی دیر بعد ہی نماز پڑھ کر نکلنے والے نمازیوں سے آمنا سامنا ہوگیا، جن سے پتا چلا کہ مسجد تھوڑی آگے ہے۔ وضو والی جگہ پاکستانی مساجد کی طرح ہی تھی لیکن مسجد سے تھوڑا دور تھی، وضو کر کے لگ بھگ سو میٹر دور ایک لمبی سی پرانی عمارت کی طرف گئے جسے نمازی حضرات نے مسجد کہا تھا، مسجد میں داخل سے سے پہلے ہی حسب عادت بڑے لینز اور ایکسٹرا فلش والے کیمرے کو ریڈی کیا اور مسجد کے ہال کی اندر سے تصویر کھینچ لی، فلش کی تیز دھار روشنی پڑھنے کی دیر تھی کہ مولوی بھائی بھاگتے ہوئے نزدیک آئے اور گھبرا کر ہمارے آنے کی وجہ پوچھی۔
انہیں بتایا کہ بھائی پاکستانی مسلمان ہیں نماز پڑھنے آئے ہیں، انکے چہرے پر تصویر لینے کی ناگواری دیکھ کر فوراً کیمرہ بیگ میں رکھ لیا اور موجودہ نماز اور کئی عدد قضا نمازیں پڑھنی شروع کر دیں۔ نمازوں کے بعد ان سے تفصیلی بات چیت ہوئی جس سے پتا چلا کہ اس مسجد کا مکمل خرچہ مالٹا کی حکومت اٹھا رہی ہے اور آجکل یہاں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر حکام ان سے خوش نہیں ہیں اور خدشہ ہے کہ اسے بند نہ کر دیا جائے?، اسلئے وہ نہیں چاہتے کہ کوئی مسجد کی تصویر لیکر اسکی مالٹائی میڈیا میں تشہیر کرے۔ ان سے یہ بھی پتا چلا کہ پورے مالٹا میں مسلمانوں کی کل گیارہ مساجد ہیں اور مسجد مریم البتول سب سے بڑی مسجد اور اسلامی سکول ہے، جہاں سینکڑوں مسلمان بچے دینی اور دنیاوی تعلیم بھی حاصل کررہے ہیں، ان سے مسجد مریم البتول کا احوال سن کر اسے دیکھنے کا اشتیاق پیدا ہوا جسکی تفصیل انشااللہ بعد میں پیش کروں گا، فی الحال اس پوسٹ کے ساتھ مسجد کی اندر اور باہر سے تصاویر ملاحظہ فرمائیں۔