گزشتہ دنوں ہم سب نے دیکھا کہ کس طرح چند فسادی مولویوں نے عام لوگوں کو اپنی چکنی چُپڑی باتوں میں لگا کر انکے جذبات کو ابھارا اور دو تین دنوں تک پورا ملک جام کر دیا گیا، لوگوں کی گاڑیاں موٹر سائیکلیں اسلام کے نام پر جلائی گئیں، دوکانیں اور ریڑھیاں لوٹی گئیں، سکول اور یونیورسٹیاں بند ہوئیں، لوگوں کے امتحانات کینسل ہوئے، ہزاروں لاکھوں ٹن سبزیوں اور فروٹ سے بھرے ٹرک سڑکوں پر رکے رہے اور ان میں موجود سامان گل سڑ گیا، سینکڑوں لوگ وقت پر ائیرپورٹس نہیں پہنچ سکے جسکی وجہ سے انکی ٹکٹیں ضائع ہوئیں، ہزاروں لاکھوں لوگوں نے راتیں سڑکوں پر گزاریں۔
یہ فسادی مولوی میڈیا کے سامنے بغیر کسی خوف کے یہ کہتے رہے کہ جنرل باجوہ اور جتنے بھی قادیانیت نواز جرنیل ہیں انہیں فوج سے برطرف کیا جائے، نیچے والے رینک کے لوگ بغاوت کریں اور ان غیر مسلم جنرلوں سے پاک فوج کو پاک کیا جائے، عمران خان یہودی بچہ ہے لہذا فوری طور پر یہ حکومت ختم کی جائے، اور ان تینوں ججوں کو کان سے پکڑ کر نکالا جائے اور انکے خلاف مقدمہ درج کیا جائے، ان تینوں نے اللہ اور رسول کی توہین کی ہے لہذا یہ تینوں جج واجب ال قتل ہیں، مسلمان انہیں قتل کر سکتے ہیں، انکا ڈرائیور انہیں قتل کر دے یا انکی سیکیورٹی انہیں قتل کردے، ہمیں انکے قتل کی خبر جلد ملنی چائییے۔
جن فسادی مولویوں نے چیف آف آرمی سٹاف، دیگر جنرلوں، ججوں اور وزیراعظم پر کفر کے فتوے دئیے، عوام الناس کو زخمی کیا، انکی گاڑیاں موٹر سائیکلیں جلائیں، انہیں فسادیوں سے حکومت نے ہار مان کر مذاکرات کئیے، انکی شرائط مانیں، اور فسادات میں جو مجرم پکڑے گئے انکو رہا کرنے کی یقین دھانیاں کروائیں گئیں، اور بدلے میں ان فسادیوں نے یہ کہہ کر دھرنا ختم کیا کہ جن لوگوں کے دھرنے کی وجہ سے نقصانات ہوئے ہم ان سے معذرت کرتے ہیں، جبکہ عوام الناس کے جو نقصانات ہوئے انکے ازالے کی بات نہ حکومت نے کی اور نہ ہی فسادی ملاؤں کی طرف سے کوئی بیان جاری ہوا۔
یہ فسادی مولوی پچھلے سال جب نواز حکومت کے خلاف سڑکیں بلاک کئے ہوئے تھےتو ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک حاضر سروس باوردی جنرل پنجاب رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل اظہر نوید حیات کو ایک ایک ہزار روپے کے لفافے مظاہرین میں بانٹتے دکھایا گیا، اور یہ دلیل دی گئی کہ ان مظاہرین کے پاس واپسی کا کرایہ نہیں تھا۔ اس ویڈیو میں جنرل حیات یہ کہتے ہیں کہ یہ ہماری طرف سے تمھارے لیے ہے، کیا ہم آپ کے ساتھ نہیں ہیں؟ یہ لفافے ایک تھیلے سے ہیں اور دوسرے تھیلے میں مزید رقم بھی موجود ہے۔
پاکستان میں مولویوں اور افواج پاکستان کے تعلق کے بارے میں ایک تلخ حقیقت موجود ہے، ایسے حقائق جنہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا، عام انسان انہیں اپنی زبان پر نہیں لاسکتا، کیونکہ وہ حلقے جو اس ملک کے اصل پالیسی ساز ہیں، انہوں نے زبانوں کی تالا بندی کی ہوئی ہے، ایک عام بلاگر کی جرات نہیں ہے کہ اپنے خیالات کا اظہار کر سکے، کچھ عرصہ پہلے کچھ بلاگرز غائب ہوئے تھے، اور کچھ طاقتور حلقوں نے انہی نام نہاد عاشقان رسول کا سہارا لیکر یہ افواہ پھیلائی تھی کہ انہوں نے توہین مذہب کی ہے۔ جو الفاظ افواج پاکستان کے بارے میں ان فسادیوں نے بجنگ دہل کہے ہیں وہ الفاظ اگر کوئی سندھی، بلوچی یا پی ٹی ایم کا فالوئر کہتا تو قیامت آ جانی تھی۔ اگر یہ طاقتور ترین حلقے پاکستانی ہیں، پاکستان کے مالک ہیں تو ہم لوگ بھی پاکستانی ہی ہیں اور اپنے ملک کے بارے میں ان سے زیادہ پریشان ہیں، اگر یہ غلط فیصلے کرتے رہے ہیں اور کر بھی رہے ہیں تو ہماری تنقید پر یہ ہمارا منہ بند کرنے کی بجائے، اپنے فیصلوں پر نظرثانی کیوں نہیں کر لیتے؟؟ آخر اس ملک میں کیا ہو رہا ہے، یہ مولوی کیوں اتنے طاقتور بن گئے ہیں کہ ہم اور ہمارے ادارے انکے سامنے بےبس ہو گئے ہیں، انہیں کون پال رہا ہے، کون انہیں ہلا شیری دے رہا ہے، کون ہے جو جب چاہئیے جس کسی کے خلاف چاہئے ان مہروں کو استعمال کرتا ہے اور اپنے نامعلوم مقاصد حاصل کرلیتا ہے؟؟
وہ لوگ جو سانپ پالنے کا شوق رکھتے ہیں، اکثر اوقات بھول جاتے ہیں، کہ وہیں سانپ جنہیں انہوں نے دودھ پلایا ہے، واپس آ کر اپنے مالکان کو ڈس بھی سکتے ہیں۔ ہمارے طاقتور ترین حلقوں کی بدنصیبی یہ ہے کہ انہوں نے ابھی تک اس بات کو سمجھا ہی نہیں ہے، کہ جن مہروں کو وہ غیرقانونی طور پر اپنے مقاصد کیلئے استعمال کررہے ہیں، وہ مستقبل میں اپنے پرانے آقاؤں پر حملہ آور بھی ہوسکتے ہیں، اسکی مثال ہم نے طالبان کی شکل میں دیکھ لی ہے، جو اپنے بنانے والوں پر ہی حملہ آور ہو گئے تھے اور ہو رہے ہیں کیونکہ ان کرایے کے قاتلوں کے آقا بدل چکے ہیں، خدا معلوم کل کو ان نام نہاد فسادی ملاؤں کے آقا بھی بدل گئیے تو کیا ہوگا، کیا ہمارے پالیسی ساز حلقوں نے اس بارے میں سوچا ہے؟؟ ہمیں کب ہوش آئے گا، شاید ہوش آتے آتے ہم خود ہی اس دنیا میں نہ رہیں?۔ اللہ پاکستان پر رحم فرمائے، آمین!