201

خبردار ہوشیار روٹی چھینی جا رہی ہے

کبھی سنا کرتےتھے کہ اگر ہم اپنے اللوں تللوں سے باز نہ آئے تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ لوگ کھانا چھین کر بھاگ جائیں گے خوراک کے حصول کے لیے چھینا جھپٹی ہو گی اور پھر ہم اپنے اللوں تللوں سے باز نہ آئے لوٹ مار میں تیزی آتی رہی کرپشن کوجائز تصور کر لیا گیا حکومتی عہدیداروں اور سرکاری منصب داروں نے سرکاری وسائل کو باپ دادا کی جاگیر سمجھ کر خوب فیض یابی حاصل کی ہر ادارہ خسارے کا شکار ہوتا گیا ہم وسائل سے مستفید ہونے کی بجائے اور وسائل کی لیکج روکنے کی بجائے قرض پر توجہ مرکوز کیے رہے ہم نے ہر مسئلے کا حل قرض کو سمجھ لیا اور پھر آخر ایک دن جو قرض خواہ کے ساتھ ہوتا ہے وہ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے پوری دنیا میں ایٹمی طاقت کا حامل اتنا بڑا ملک تماشہ بنا ہوا ہے ہم نے نہ قناعت کی نہ اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی اور کل جو باتیں سنا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے یہ لوگ ایسے ہی ڈراتے ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے لیکن آج وہ تمام تر خدشات حقیقت کا روپ دھارے ہمارے سامنے ہیں کبھی کوئی تصور کر سکتا تھا کہ ایک زرعی ملک میں لوگ روٹی کو ترسیں گے لوگ کھانا چھین لیں گے چند روز سے ایسی خبروں نے ہوش اڑا دیے ہیں ایک خبر یہ تھی کہ فوڈ پانڈا کے ڈیلیوری بوائے سے ڈاکووں نے کھانا چھین لیا قانون اور پولیس کی زبان میں انھیں ڈاکو ہی کہیں گے ہو سکتا ہے کہ وہ بھوکے ہوں اور انھیں کوئی اور نہ سوجھی ہو انھوں نے بھوک مٹانے کے لیے ڈیلیوری بوائے سے کھانا چھین لیا ہو لیکن کتنی دلچسپ بات ہے کہ ہم کھانا چھینے والے کو ڈاکو کہہ رہے ہیں اور ملک لوٹنے والوں کو جن کی لوٹ مار سے لوگ کھانا چھیننے پر مجبور ہوئے ہیں انھیں ہم آج بھی لیڈر کہتے ہیں اور انھیں اپنا نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں ایک لحاظ سے تو ہمارے ساتھ درست ہو رہی ہے بلکہ ہم اس سے زیادہ کے حق دار ہیں آج کل پاکستان بحرانوں کا دیس ہے ملک بھر میں آٹا آٹا ہو رہی ہے سندھ کے میر پور خاص کے علاقے میں ایک مزدور سستے آٹے کے حصول کے لیے لگی بھوکوں کی لائن میں بھگدڑ مچ جانے سے پاوں تلے آکر کچل جانے سے مر گیا ایک اور خبر ملاحظہ فرمائیں ڈاکو سستے آٹے کے ایک پوائنٹ سے 45 ہزار روپے اور آٹے کے تھیلے چھین کر فرار ہوگئے اسی طرح سوشل میڈیا پر آٹے کے حصول کے لیے چھینا جھپٹی کے درجنوں ویڈیو کلپ وائرل ہوئے ہیں جن میں لوگ ایک آٹے کے تھیلے کے حصول کے لیے ایسے لڑ مڑ رہے ہوتے ہیں جیسے کوئی نایاب چیز ان کے ہاتھ لگ گئی ہو اور ہر کوئی اسے حاصل کرنے کے لیے مرنے مارنے پر تلا ہو

آٹا سبزی اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں ایک تہائی سے زیادہ اضافہ ہو گیا ہے اس کے برعکس ذرائع آمدنی محدود بلکہ بند ہو رہے ہیں فیکٹریاں اور کاروبار بند ہونے سے لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں کبھی تصور کیا جا سکتا تھا کہ پاکستان میں روٹی اور نان 25 سے 30 روپے کا ہو جائے گا اب تو 5ہزار کا نوٹ بھی کاغذ کا ٹکڑا لگتا ہے بڑھتے ہوئے غذائی بحران نے امن و امان کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے ابھی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر قرض لیا جا رہا ہے جس کے بغیر اب کوئی راستہ باقی نہیں بچا اور ان شرائط کے مطابق بجلی گیس اور پٹرول مزید مہنگا کرنا پڑے گا اور اس مہنگائی کے اثرات جب اس مہنگائی کے ساتھ مل کر ملٹی پلائی ہوں گے تو کس غضب کی قیامت ہو گی اس کا اندازلگانا بھی مشکل ہے اوپر سے ہماری سوسائٹی کا یہ عالم ہے کہ ان مشکل ترین حالات میں جبکہ عام آدمی کی بقا خطرے میں ہے ہم ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری سے باز نہیں آرہے لگتا ہے ہم مرنا بھول گئے ہیں ہم نے پیسے کو ہی دین مذہب بنالیا ہے لوگ دھڑا دھڑ گندم آٹا چاول دالیں سٹاک کر رہے ہیں سرمایہ داروں نے ڈالروں اور سونے میں سرمایہ کاری شروع کر دی ہے ایسی نحوست اور غیر یقینی ہے کہ جس کے ہتھے جو چیز چڑھتی ہے اسے سٹاک کرنے پر لگا ہوا ہے انتظامیہ خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے کیونکہ حکمران اپنی حکومتیں بچانے میں مصروف ہیں ان کا محبوب ترین مشغلہ سیاسی بیان بازی ہے اور ہم جن پر ٹکیہ کر کے بیٹھے ہیں کہ اراکین پارلیمنٹ ہماری لڑائی لڑیں گے ان کا حال ملاحظہ فرمائیں ایک نجی ٹی وی کی رپورٹر آسیہ کوثر نے کمال کر دیا عوامی نمائندوں کو اتنی بری طرح بے نقاب کیا اس نے پارلیمنٹ کے باہر اراکین پارلیمنٹ سے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں بارے پوچھا کسی کو اندازہ بھی نہیں تھا، کس بھاو بک رہی ہے، ایک نے کہا چینی 45 روپے کلو ہو گی دوسرے نے کہا 70 روپے کلو ہو ایک نے کہا آٹا 14،15 روپے کلو ہو گا دوسرے نے کہا 11 روپے کلو ہو گا ایک نے کیا آٹا 250 روپے کا تھیلا ہے کئی ایک نے کہا ہم گروسری نہیں خریدتے کئی ایک نے کہا بیگم سے پوچھ کر بتاتے ہیں جن لوگوں کو یہ پتہ نہیں کہ ایک کلو آٹا 160 روپے اور چینی سو روپے کلو فروخت ہو رہی ہے زرا کسی گلی محلے کی دوکان پر جا کر جائزہ لیں اب کھانے پینے کی اشیاء بھی ساشوں میں آگئی ہیں ڈبل روٹی دو اور چار توش کے پیکٹ میں مل رہی ہے لوگ ایک کلو آٹا خرید کر ایک دن نکال رہے ہیں مرچ مصالحے چٹکی بھر ساشوں میں دستیاب ہیں امیر آدمی آج بھی اپنی گاڑی کا فیول ٹینک 25،30 یزار میں بھرواتا ہے اور ڈرائیور کو مہینے بعد 20 ہزار تنخواہ دیتا ہے کبھی سوچا ہے جب آپ 25،30 ہزار کا فیول ڈلوا رہے ہوتے ہیں اس غریب کے دل پر کیا گزرتی ہو گی جسے آپ مہینے بعد 20 ہزار دے رہے ہیں خدارا لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی میں آسانی پیدا کریں ورنہ وہ نہ ہو آپ کا ڈرائیور آپ سے گاڑی چھین کر لے جائے ویسے حالات بڑے ہی عجیب وغریب ہیں ہر کوئی پوچھتا ہے کیا ہونے والا ہے