کبھی سنا کرتےتھے کہ اگر ہم اپنے اللوں تللوں سے باز نہ آئے تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ لوگ کھانا چھین کر بھاگ جائیں گے خوراک کے حصول کے لیے چھینا جھپٹی ہو گی اور پھر ہم اپنے اللوں تللوں سے باز نہ آئے لوٹ مار میں تیزی آتی رہی کرپشن کوجائز تصور کر لیا گیا حکومتی عہدیداروں اور سرکاری منصب داروں نے سرکاری وسائل کو باپ دادا کی جاگیر سمجھ کر خوب فیض یابی حاصل کی ہر ادارہ خسارے کا شکار ہوتا گیا ہم وسائل سے مستفید ہونے کی بجائے اور وسائل کی لیکج روکنے کی بجائے قرض پر توجہ مرکوز کیے رہے ہم نے ہر مسئلے کا حل قرض کو سمجھ لیا اور پھر آخر ایک دن جو قرض خواہ کے ساتھ ہوتا ہے وہ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے پوری دنیا میں ایٹمی طاقت کا حامل اتنا بڑا ملک تماشہ بنا ہوا ہے ہم نے نہ قناعت کی نہ اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی اور کل جو باتیں سنا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے یہ لوگ ایسے ہی ڈراتے ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے لیکن آج وہ تمام تر خدشات حقیقت کا روپ دھارے ہمارے سامنے ہیں کبھی کوئی تصور کر سکتا تھا کہ ایک زرعی ملک میں لوگ روٹی کو ترسیں گے لوگ کھانا چھین لیں گے چند روز سے ایسی خبروں نے ہوش اڑا دیے ہیں ایک خبر یہ تھی کہ فوڈ پانڈا کے ڈیلیوری بوائے سے ڈاکووں نے کھانا چھین لیا قانون اور پولیس کی زبان میں انھیں ڈاکو ہی کہیں گے ہو سکتا ہے کہ وہ بھوکے ہوں اور انھیں کوئی اور نہ سوجھی ہو انھوں نے بھوک مٹانے کے لیے ڈیلیوری بوائے سے کھانا چھین لیا ہو لیکن کتنی دلچسپ بات ہے کہ ہم کھانا چھینے والے کو ڈاکو کہہ رہے ہیں اور ملک لوٹنے والوں کو جن کی لوٹ مار سے لوگ کھانا چھیننے پر مجبور ہوئے ہیں انھیں ہم آج بھی لیڈر کہتے ہیں اور انھیں اپنا نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں ایک لحاظ سے تو ہمارے ساتھ درست ہو رہی ہے بلکہ ہم اس سے زیادہ کے حق دار ہیں آج کل پاکستان بحرانوں کا دیس ہے ملک بھر میں آٹا آٹا ہو رہی ہے سندھ کے میر پور خاص کے علاقے میں ایک مزدور سستے آٹے کے حصول کے لیے لگی بھوکوں کی لائن میں بھگدڑ مچ جانے سے پاوں تلے آکر کچل جانے سے مر گیا ایک اور خبر ملاحظہ فرمائیں ڈاکو سستے آٹے کے ایک پوائنٹ سے 45 ہزار روپے اور آٹے کے تھیلے چھین کر فرار ہوگئے اسی طرح سوشل میڈیا پر آٹے کے حصول کے لیے چھینا جھپٹی کے درجنوں ویڈیو کلپ وائرل ہوئے ہیں جن میں لوگ ایک آٹے کے تھیلے کے حصول کے لیے ایسے لڑ مڑ رہے ہوتے ہیں جیسے کوئی نایاب چیز ان کے ہاتھ لگ گئی ہو اور ہر کوئی اسے حاصل کرنے کے لیے مرنے مارنے پر تلا ہو
آٹا سبزی اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں ایک تہائی سے زیادہ اضافہ ہو گیا ہے اس کے برعکس ذرائع آمدنی محدود بلکہ بند ہو رہے ہیں فیکٹریاں اور کاروبار بند ہونے سے لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں کبھی تصور کیا جا سکتا تھا کہ پاکستان میں روٹی اور نان 25 سے 30 روپے کا ہو جائے گا اب تو 5ہزار کا نوٹ بھی کاغذ کا ٹکڑا لگتا ہے بڑھتے ہوئے غذائی بحران نے امن و امان کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے ابھی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر قرض لیا جا رہا ہے جس کے بغیر اب کوئی راستہ باقی نہیں بچا اور ان شرائط کے مطابق بجلی گیس اور پٹرول مزید مہنگا کرنا پڑے گا اور اس مہنگائی کے اثرات جب اس مہنگائی کے ساتھ مل کر ملٹی پلائی ہوں گے تو کس غضب کی قیامت ہو گی اس کا اندازلگانا بھی مشکل ہے اوپر سے ہماری سوسائٹی کا یہ عالم ہے کہ ان مشکل ترین حالات میں جبکہ عام آدمی کی بقا خطرے میں ہے ہم ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری سے باز نہیں آرہے لگتا ہے ہم مرنا بھول گئے ہیں ہم نے پیسے کو ہی دین مذہب بنالیا ہے لوگ دھڑا دھڑ گندم آٹا چاول دالیں سٹاک کر رہے ہیں سرمایہ داروں نے ڈالروں اور سونے میں سرمایہ کاری شروع کر دی ہے ایسی نحوست اور غیر یقینی ہے کہ جس کے ہتھے جو چیز چڑھتی ہے اسے سٹاک کرنے پر لگا ہوا ہے انتظامیہ خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے کیونکہ حکمران اپنی حکومتیں بچانے میں مصروف ہیں ان کا محبوب ترین مشغلہ سیاسی بیان بازی ہے اور ہم جن پر ٹکیہ کر کے بیٹھے ہیں کہ اراکین پارلیمنٹ ہماری لڑائی لڑیں گے ان کا حال ملاحظہ فرمائیں ایک نجی ٹی وی کی رپورٹر آسیہ کوثر نے کمال کر دیا عوامی نمائندوں کو اتنی بری طرح بے نقاب کیا اس نے پارلیمنٹ کے باہر اراکین پارلیمنٹ سے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں بارے پوچھا کسی کو اندازہ بھی نہیں تھا، کس بھاو بک رہی ہے، ایک نے کہا چینی 45 روپے کلو ہو گی دوسرے نے کہا 70 روپے کلو ہو ایک نے کہا آٹا 14،15 روپے کلو ہو گا دوسرے نے کہا 11 روپے کلو ہو گا ایک نے کیا آٹا 250 روپے کا تھیلا ہے کئی ایک نے کہا ہم گروسری نہیں خریدتے کئی ایک نے کہا بیگم سے پوچھ کر بتاتے ہیں جن لوگوں کو یہ پتہ نہیں کہ ایک کلو آٹا 160 روپے اور چینی سو روپے کلو فروخت ہو رہی ہے زرا کسی گلی محلے کی دوکان پر جا کر جائزہ لیں اب کھانے پینے کی اشیاء بھی ساشوں میں آگئی ہیں ڈبل روٹی دو اور چار توش کے پیکٹ میں مل رہی ہے لوگ ایک کلو آٹا خرید کر ایک دن نکال رہے ہیں مرچ مصالحے چٹکی بھر ساشوں میں دستیاب ہیں امیر آدمی آج بھی اپنی گاڑی کا فیول ٹینک 25،30 یزار میں بھرواتا ہے اور ڈرائیور کو مہینے بعد 20 ہزار تنخواہ دیتا ہے کبھی سوچا ہے جب آپ 25،30 ہزار کا فیول ڈلوا رہے ہوتے ہیں اس غریب کے دل پر کیا گزرتی ہو گی جسے آپ مہینے بعد 20 ہزار دے رہے ہیں خدارا لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی میں آسانی پیدا کریں ورنہ وہ نہ ہو آپ کا ڈرائیور آپ سے گاڑی چھین کر لے جائے ویسے حالات بڑے ہی عجیب وغریب ہیں ہر کوئی پوچھتا ہے کیا ہونے والا ہے