اگر یہ اعزاز کسی اور کو ملا ہوتا تو وہ اِس کا دنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹتا اور اپنی عزت افزائی کے لئے شہر شہر جشن اور تقریبات کا سلسلہ شروع کروانے کے لئے ہر طرح کے جتن کرتا۔ یہ تو ہمارے شاندار شاعر اور ادیب باصر کاظمی ہیں جنہیں ملکہ برطانیہ نے 2013 میں ایم بی ای یعنی ممبر آف برٹش ایمپائر کا اعزاز دیا اور وہ یہ اعزاز حاصل کرنے کے بعد خاموشی سے اپنے تخلیقی کام میں مگن رہے۔ مجھے یاد ہے کہ لندن بارو آف والتھم فاریسٹ کے شاندار ہال میں اردو مرکز نے اُن کے لئے ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ باصر کاظمی کو ملنے والے اس ایوارڈ کی خیر مقدمی تقریب کی صدارت ساقی فاروقی نے کی تھی اور مہمانان خصوصی آغا ناصر اور ڈاکٹر خورشید رضوی تھے۔ باصرسلطان کاظمی اردو کے پہلے شاعر ہیں جنہیں برطانیہ کے اس شاندار شاہی اعزاز کا حق دار سمجھا گیا ہے۔ 1993 میں جب میں لندن آیا تو جن چند شخصیات سے مجھے ملنے کی طلب تھی اُن میں ایک باصر کاظمی بھی تھے۔ میں اُن کی شاعری کا تو پہلے سے ہی مداح تھا لیکن جب وہ 1994 میں مانچسٹر سے چند روز کے لئے لندن آئے تو اُن سے ملاقات کے بعد میں اُن کی شاندار اور پروقار شخصیت کا بھی گرویدہ ہو گیا۔ باصر کاظمی اُس بڑے باپ کے بیٹے ہیں جن کا نام ہی اُن کی اولاد کی پہچان کے لئے کافی ہے اور جن کے حوالے کے بغیر اردو غزل کا تذکرہ اور تاریخ مکمل نہیں ہوتی یعنی بے مثال شاعر ناصر کاظمی جن کے فرزند ارجمند باصر کاظمی ہیں۔ اِس قدر معتبر حوالے کے باوجود باصر کاظمی نے اپنی شعری اور تخلیقی شناخت کا الگ چراغ جلایا، امریکہ، یورپ، مڈل ایسٹ، انڈیا یا دنیا کے کسی اور خطے میں جہاں کہیں بھی اُن کو کسی مشاعرے یا کانفرنس میں مدعو کیا جاتا ہے تو انہیں صرف باصر کاظمی یعنی ایک عمدہ اور شاندار شاعر ہونے کی وجہ سے اُن کی پذیرائی ہوتی ہے۔ مجھے باصر کاظمی کے ہمراہ دنیا کے کئی ممالک کے مشاعروں میں شریک ہونے کا موقع ملا وہ جہاں بھی گئے انہوں نے اپنے والد ناصر کاظمی کے نام کو کیش نہیں کروایا (حالانکہ انہیں اس کا پورا پورا استحقاق ہے) وہ اپنے الگ تخلیقی جوہر اور منفرد شاعرانہ آہنگ کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں اور مقبولیت کے پروقار درجے پر فائز ہیں۔ اُن کی شعری تربیت میں ناصر کاظمی کا بڑا حصہ ہے لیکن باصر کاظمی نے اپنے شعری اظہار اور خاص طور پرغزل کہنے کے لئے یکسر مختلف اسلوب کا انتخاب کیا ہے۔ ویسے تو الطاف حسین حالی نے کہا تھا کہ
؎ قیس سا پھر نہ اُٹھا کوئی بنی عامر میں
فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی شخص
لیکن کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی گھرانے میں کئی قابل فخر ہستیاں جنم لیتی ہیں، باصر کاظمی نے نہ صرف ناصر کاظمی کے شاعرانہ وقار کی لاج رکھی ہے بلکہ وہ اپنے خاندان کے ایک اور قابل فخر شاعر اور نفیس انسان ہیں۔ باصر کاظمی نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگلش لٹریچر میں ایم اے کیا۔ دوران تعلیم وہ راوی کے ایڈیٹر اور سٹوڈنٹس یونین کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ ایم اے کرنے کے بعد انہوں نے سی ایس ایس کرنے کی بجائے تدریس کا انتخاب کیا اور گورنمنٹ کالج میں ہی انگلش کے استاد مقرر ہوئے۔ نوے کی دہائی کے آغاز میں وہ برطانیہ آ گئے 1991 میں ایم ایڈ کرنے کے بعد سن 2000 میں انہوں نے یونیورسٹی آف مانچسٹر سے ایم فل کیا۔ 1997 میں اُن کے ڈرامے بساط کا ترجمہ چیس بورڈ (CHESS BOARD) کے نام سے ہوا جسے کئی تھیٹرز میں پیش کیا گیا۔بعد ازاں ان کا یہ ڈرامہ اے لیول اردو کے نصاب میں شامل ہوا۔ باصر کاظمی نے پورے یونائٹیڈ کنگڈم میں پوئٹری اور ڈرامہ ورکشاپس بھی کنڈکٹ کیں۔ انہیں نارتھ ویسٹ پلے رائٹس ورکشاپ کا ایوارڈ بھی ملا۔ باصر کاظمی کی ساری زندگی درس و تدریس اور اچھی شاعری تخلیق کرنے میں گزری ہے۔ اُن کی شاعری کے انگریزی میں تراجم ہوئے جو کتابی شکل میں شائع ہو چکے ہیں۔ وہ اردو کے واحد شاعر ہیں جب کا ایک شعر سلاؤ کے مکینز ی سکوئر میں انگریزی ترجمے کے ساتھ ایک پتھر پر کندہ کر کے آویزاں کیا گیا وہ شعر کچھ آپ بھی پڑھ لیجئے
دِل لگا لیتے ہیں اہل دل وطن کوئی بھی ہو
پھول کو کھلنے سے مطلب ہے چمن کوئی بھی ہو
باصر کاظمی کی غزلوں کا پہلا مجموعہ موج خیال 1997 دوسرا مجموعہ چمن کوئی بھی ہو 2008 میں اور اُن کے ڈراموں اور شاعری کا انتخاب شجر ہونے تک 2015 میں شائع ہوا جبکہ ناصر کاظمی اور باصر کاظمی کی غزلوں کے انتخاب کو انگریزی ترجمے کے ساتھ ریڈبیک پریس بریڈ فورڈ نے 2003 میں شائع کیا اور پھر یہی کتاب 2006 میں غزل، نسل در نسل کے نام سے چھپی۔ ناصر کاظمی کی شاعری کے حوالے سے بھی باصر کاظمی کی کئی کتابیں اور تفصیلی مضامین پاکستان اور بھارت کے معتبر جریدوں کی زینت بن چکے ہیں جبکہ باصر کاظمی کی اپنی شاعری اور ڈراموں کے بارے میں بھی بہت سے نامور اہل قلم کے تاثرات اور تجزیے اخبارات اور ادبی رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ باصر کاظمی نے ایک بار روزنامہ جنگ لندن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اچھی شاعری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ دِل سے نکلتی ہے اور دِل میں اُتر جاتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ برطانیہ ہجرت کے بعد میری شاعری کے نئے دور کا آغاز ہوا جس میں وطن سے دوری اور اپنوں سے جدائی کا احساس کارفرما تھا۔ باصر کاظمی برطانیہ میں اس وقت اردو کے نمائندہ اور سب سے اہم شاعر ہیں اور اُن کی شاعری کے قدردان اور مداح پوری اردو دنیا میں موجود ہیں۔اُن کی شاعری کا انتخاب’اب وہاں رات ہو گئی ہو گی‘ کے نام سے 2018 میں دلّی سے بھی شائع ہوا۔2017ء میں انہیں علی گڑھ ایلومنائی ایسوسی ایشن ہوسٹن امریکہ کی طرف سے علی سردار جعفری لٹریری ایوارڈ دیا گیا جبکہ 2015ء میں بزم صدف انٹرنیشنل قطر نے انہیں لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ دیا۔ باصر کاظمی نے ہجرت کے بعد جس طرح اپنے شعری سفر کو جاری رکھا اور خاص طور پر اردوغزل کے سرمائے میں ناصر کاظمی کی طرح اضافہ کیا اس پر انہیں جتنی داددی جائے وہ کم ہے۔ اُن کی اس خوبی کا اعتراف موجودہ عہد کے ہر بڑے شاعر اور ادیب نے کیا ہے۔ باصر کاظمی کی غزل کا اسلوب ناصر کاظمی کی غزل سے یکسر مختلف ہے جو اردو شاعری کے باذوق قارئین اور نقادوں کو ضرور اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ اردو غزل کے ایک اہم اور عمدہ شاعر ہیں اُن کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے:
اس قدر ہجر میں کی نجم شماری ہم نے
جان لیتے ہیں کہاں کوئی ستارہ کم ہے
اتنی جلدی نہ بنا رائے مرے بارے میں
ہم نے ہمراہ ا بھی وقت گزارہ کم ہے
……
غم برگد کا گھنا درخت
خوشیاں ننھے ننھے پھول
آنسو خشک ہوئے جب سے
آنگن میں اڑتی ہے دھول
……
کہاں ملے گا وہ مجھ سے اگر یہاں بھی رہے
مری دعا ہے کہ وہ خوش رہے جہاں بھی رہے
……
دو دن میں نہ ہو جاؤ اگر تم تہی دامن
لو پھول تمہارے سہی اور خار ہمارے
……
ہوتے ہیں جو سب کے وہ کسی کے نہیں ہوتے
اوروں کے تو کیا ہوں گے وہ اپنے نہیں ہوتے
……
گلہ بھی تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی
وہ بات اپنی جگہ ہے یہ بات اپنی جگہ
……
ہیں کون سے بہار کے دن اپنے منتظر
یہ دِن کسی طرح سے گزر بھی گئے تو کیا
……
آواز رفتگاں مجھے لاتی ہے اس طرف
یہ راستہ اگرچہ مری رہ گزر نہیں
……
یہ مشاہدہ ہے میرا رہِ زندگی میں باصرؔ
وہی منہ کے بل گرا ہے جو چلا سنبھل سنبھل کے
……
کرتے نہ جو ہم اہل وطن اپنا گھر خراب
ہوتے نہ یوں ہمارے جواں دربدر خراب
……
باصر کاظمی کی شاعری کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی روزمرہ زندگی کے مشاہدات کو انتہائی سلیقے سے اپنی غزل کا حصہ بنایا ہے۔ وہ بڑی آسانی اور سہولت سے زندگی کی ایسی سچائیوں اور حقیقتوں کو شعر کے قالب میں ڈھال دیتے ہیں جنہیں بیان کرنا ہر ایک شاعر کے بس کی بات نہیں۔ باصر کاظمی کی شاعری پڑھ کر ناصر کاظمی کی طرف دھیان نہیں جاتا بلکہ باصر کاظمی کو ہی داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ باصر کاظمی کا شعری سفر جاری ہے۔ وہ کسی صلے اور ستائش کی تمنا کے بغیر عمدہ اور دِل موہ لینے والے شعر کہہ رہے ہیں۔ حکومت پاکستان کے ارباب اختیار کو چاہئے کہ وہ برطانیہ میں باصر کاظمی جیسے اردو کے اہل قلم کے ادبی کارناموں کی پذیرائی کریں۔ اگر برطانیہ میں انہیں شاہی اعزاز کا حق دار سمجھا گیا ہے تو پاکستان میں بھی اُن کی شاعرانہ خوبیوں کا اعتراف کیا جانا چاہئے۔
٭٭٭