برطانیہ کے علاوہ یورپ کے جن ممالک میں بھی پاکستانی آباد ہیں وہاں مشاعروں اور ادبی تقریبات کے انعقاد کو آپس کے رابطے، اردو زبان کے فروغ اور تفریح کا آسان ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ بیرونی دنیا میں سب سے زیادہ مشاعرے اور ادبی محفلیں لندن میں منعقد ہوتی ہیں۔ برطانوی دارالحکومت کے علاوہ دیارِ غیر کے بہت سے شہروں میں ادبی تنظیمیں قائم ہیں جو ہر سال شعر و سخن کی محفلوں اور ادبی اجتماعات کے ذریعے سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہیں۔ برمنگھم، مانچسٹر،بریڈ فورڈ، گلاسگو اور ایڈنبرا میں بہت سے ایسے عمدہ، شاندار اور یادگار مشاعرے منعقد ہوتے رہے ہیں جن میں پاکستان اور بھارت سے اردو کے نامور شعرائے کرام کی شرکت کی یادیں آج بھی باذوق تارکین وطن کے حافظے میں تازہ ہیں۔ یورپ کے دیگر شہروں فرینکفرٹ، کوپن ہیگن، اوسلو، سٹاک ہوم، دی ہیگ، برسلز اور پیرس میں بھی بڑی بڑی تقریبات اور عالمی مشاعرے تارکین وطن کے ادبی ذوق کی تسکین کا باعث بنتے رہے ہیں اور آج بھی ان شہروں میں ادبی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں اور اردو زبان و ادب کے فروغ کی علمبردار ہیں۔ یہ تنظیمیں عام طور پر اپنے وسائل کے بل بوتے پر ہی تقریبات کا اہتمام کرتی ہیں۔ انہیں کسی ادارے کی طرف سے مالی امداد کم ہی میسر آتی ہے۔ کبھی کبھار کسی تنظیم کو پاکستانی سفارت خانے کی طرف سے معاونت حاصل ہو جاتی ہے۔پاکستان ہائی کمیشن، ایمبیسی (سفارت خانے) اور قونصلیٹ ادبی اور ثقافتی تقریبات کو سپانسر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ میں ایک بار سکینڈے نیویا کے ایک ملک میں مشاعرے میں شرکت کے لیے گیا۔ یہ مشاعرہ ایک شاندار آڈیٹوریم میں تھا جس میں پاکستان کے سفیر کو صدارت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ معلوم ہوا کہ ایمبیسڈر صاحب کو بہت اصرار کر کے اس تقریب میں شرکت کے لیے راضی کیا گیا تھا اور انہوں نے پاکستانی سفارت خانے میں اس مشاعرے کی اجازت دینے سے بھی معذرت کر لی تھی۔ مشاعرے کے بعد کھانے کے دوران یہ سفیر محترم مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ مجھے شعر و شاعری سے بالکل بھی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی میں اردو میڈیم کا آدمی ہوں۔ میں نے ان کی اس شانِ بے نیازی اور بے اعتنائی پر جواب دیا کہ سفیر صاحب آپ کو جس بات پر شرمندہ ہونا چاہیے وہ بات آپ بڑے فخر سے مجھے بتا رہے ہیں۔ شاعری اور اپنی زبان سے دلچسپی صرف نفیس لوگوں کو ہوتی ہے۔ میرے اس رد عمل پر سفیر صاحب کھسیانی سی ہنسی کے بعد ایک دوسرے مہمان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں متعین ہمارے سفیروں اور سفارت کاروں کی اکثریت مردم بیزار اور شعر و ادب کے ذوق سے عاری ہوتی ہے۔ انہیں اپنی ثقافت اور زبان کے فروغ میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ البتہ حکومتی وزیروں اور سیاست دانوں کی چاپلوسی اور ان کی ہر ممکن خدمت کو وہ اپنی ملازمت کی اولین ترجیح سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ کہنے کو تو پاکستان کے سفیر ہوتے ہیں لیکن اپنے ملک کے امیج کو بہتر بنانے کی بجائے یہ ہر وہ کام کرنے کے لیے مستعد رہتے ہیں جس سے انہیں حکومت وقت کی خوشنودی حاصل رہے۔ ان کی مثال چچا چھکن کی اس سائیکل کی سی ہے جس کی گھنٹی کے سوا ہر چیز بجتی ہے۔
لندن دنیا کا ایک اہم سیاسی، تجارتی اور سفارتی مرکز ہے۔ ہر ملک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے بہترین سفیروں اور فارن سروس کے تجربہ کار اور شاندار لوگوں کو یہاں متعین کرے تاکہ وہ بیرونی دنیا میں اپنے ملک کے مفادات کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ سفارتی تقاضوں کی تکمیل بھی کر سکیں۔ گزشتہ 30 برسوں میں لندن کے پاکستان ہائی کمیشن میں جتنے بھی ہائی کمشنر متعین ہوئے (چاہے ان کا تعلق فارن سروس سے تھا یا کسی سیاسی جماعت سے) سب کے سب اپنی ملازمت کی مدت پوری کرنے کے لیے آئے تھے۔ کبھی کسی سفیر یا ہائی کمشنر نے پاکستان کی ثقافت اور زبان و ادب کے فروغ کے لیے کوئی کوشش نہیں کی اور نہ ہی کسی نے برطانیہ میں مقیم اردو، پنجابی، پوٹھواری یا دیگر علاقائی زبانوں کے اہلِ قلم سے رابطے کی ضرورت کو محسوس کیا۔ اگر کوئی ادبی یا ثقافتی تنظیم لندن میں کسی تقریب کے لیے پاکستان ہائی کمیشن کی معاونت حاصل کرنا چاہے تو اس ضمن میں سفارت خانے کو بجٹ اور مالی وسائل کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ البتہ اگر کوئی بڑا حکومتی اہلکار، وزیر یا سیاستدان لندن آجائے تو ہمارے سفارتی اہلکار اس کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہر طرح کے مالی وسائل کو برو کار لانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ لندن میں پاکستان ہائی کمیشن ہو یا کسی اور ملک میں ہمارا سفارت خانہ یہاں ملازمین کی فوج ظفر موج خصوصی طور پر پاکستان سے بیرونی ممالک میں ٹرانسفر کی جاتی ہے۔ یہ لوگ روایتی طور پر اوورسیز پاکستانیوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے ان کے لیے مشکلات میں اضافے کا باعث بنتے ہیں اور پھر ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ملازمت کی مدت پوری ہونے کے بعد واپس پاکستان جانے کی بجائے کسی طرح ان ملکوں میں ہی مستقل رہائش کا کوئی وسیلہ تلاش کر لیں۔ ایک زمانہ تھا کہ لندن میں رہنے والے اوورسیز پاکستانی اپنے پاسپورٹ کی تجدید یا ویزے کے حصول کے لیے ہائی کمیشن جاتے تھے لیکن پھر ہمارے سفارت خانے نے پاکستان کے پاسپورٹ اور ویزے کے حصول کا ٹھیکہ ایک پرائیویٹ کمپنی کے سپرد کر دیا اور یہ پرائیویٹ کمپنی درخواست دہندگان سے مال بٹورنے کے نئے نئے حربے استعمال کرتی رہتی ہے۔ ایسے اوورسیز پاکستانی جنہیں اپنا شناختی کارڈ یعنی نائیکوپ بنوانے یا اس کی تجدید کروانے کی ضرورت پیش آتی ہے انہیں آن لائن درخواست دینے کے لیے اصرار کیا جاتا ہے۔ بہت سے بزرگ اوورسیز پاکستانی جعلی آن لائن کمپنیز کی ویب سائٹس پر درخواستیں پر کر کے انہیں فیس بھی ادا کر دیتے ہیں اور جب کئی ہفتوں بعد یہ پتہ لگتا ہے کہ ان کے ساتھ فراڈ ہو گیا ہے تو اس ضمن میں پاکستان ہائی کمیشن متاثرین کی کسی بھی طرح کی مدد سے معذرت کر کے نئی درخواست پُر کرنے کا مفت مشورہ دیتا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ارباب اختیار کو چاہیے کہ وہ دنیا کے 195 ممالک میں سے 97 ممالک میں موجود اپنے سفارت خانوں اور قونصلیٹس کی کارکردگی کا سالانہ بنیادوں پر جائزہ لیں کہ جن مقاصد کے لیے یہ سفارتی مشن وہاں قائم کیے گئے ہیں کیا وہ جزوی طور پر ہی ان مقاصد کی تکمیل کر رہے ہیں یا نہیں؟ لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس فارن آفس یا دفتر خارجہ نے ان سفارتی اداروں کی کارکردگی کو مانیٹر کرنا ہے اس کی اپنی کارکردگی کا جائزہ کون لے گا؟ پاکستان کا کوئی سرکاری ادارہ ہو یا کوئی محکمہ سب کا حال ایک جیسا ہی ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں ہمارے سفارت خانے ایک طرح کا ”منی پاکستان“ یعنی چھوٹا سا پاکستان ہیں۔ اسی لیے اب ان سفارتی اداروں کا بھی وہی حال ہو چکا ہے جو پورے اسلامی جمہوری پاکستان کا ہے۔ لندن میں اوورسیز پاکستانیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے اور ان میں سے اکثریت کا واسطہ کسی نہ کسی کام کے سلسلے میں اپنے ہائی کمیشن سے پڑتا رہتا ہے لیکن یہاں پر متعین عملے کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ سائلین کو ٹرخا دیا جائے۔ انہیں آن لائن سروس کے کھاتے میں ڈال دیا جائے یا ان سے جان چھڑانے کے لیے کوئی نیا حربہ استعمال کیا جائے۔ جہاں تک اپنی ثقافت اور زبان و ادب کے فروغ کے سلسلے میں ہائی کمیشن کی دلچسپی کا تعلق ہے تو وہ بہت ہی مایوس کن ہے۔ موجودہ ہائی کمشنر تو کسی ادبی یا ثقافتی تقریب میں شرکت کو ہی اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ میں نہ چاہنے کے باوجود انڈین ہائی کمیشن کے نہرو سینٹر کی مثال دے رہا ہوں جو لندن میں ایک بہت ہی فعال ثقافتی مرکز ہے جس میں ہر سال درجنوں ایسی تقریبات منعقد ہوتی ہیں جن میں انڈین کمیونٹی کے علاوہ دیگر ممالک کے سفارت کار اور انگریز بھی بہت ذوق و شوق سے شریک ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی وزارت خارجہ نے لندن کے پاکستانی ہائی کمیشن کو بھی صرف اور صرف حکومتی اربابِ اختیار، وزیروں اور سیاست دانوں کی آو بھگت اور میزبانی تک محدود کر رکھا ہے اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ وہ سیاست دان جو حکومت سے محروم ہو کر لندن کی سڑکوں اور شاپنگ سینٹرز میں مارے مارے پھرتے ہیں جیسے ہی یہ سیاست دان اقتدار میں آتے ہیں ہمارا ہائی کمیشن ان کی خوشنودی کے حصول اور ان کی خاطر مدارت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا چاہے اس کے لیے کتنے ہی مالی وسائل صرف کرنا پڑیں۔ اس معاملے میں سفارتی عملے کی پھرتیاں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ پاکستان کے نہیں بلکہ سیاست دانوں کے ذاتی ملازم ہیں۔ہمارے ملک کے مفاد پرست اور عیار سیاستدانوں نے ہر ادارے کا حال پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز، پاکستان ریلویز اور واپڈا جیسا کر دیا ہے۔ اب اس فہرست میں پاکستان ہائی کمیشن لندن اور دیگر ممالک میں موجود سفارت خانوں کو بھی شامل کر دینا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں آباد تقریباً ایک کروڑ اوورسیز پاکستانی اپنے ملک کے اصل سفیر ہیں جن کی طرف سے بھیجے جانے والے زرِ مبادلہ سے ملکی معیشت کو استحکام ملتا ہے۔ درحقیقت یہ پاکستانی تارکین وطن ہی اپنے ملک کا سرمایہ ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ ایسے ملک اور قوم کا سرمایہ ہیں جسے سرمایہ خرد برد کرنے کی عادت ہے۔
٭٭٭٭٭٭