486

بدگمانی زہر قاتل ہے

ہمارے پاکستانی معاشرے میں کچھ بظاہر صحت مند نظر آنے والے لوگ اندر سے ذہنی طور پر بیمار ہوتے ہیں، یہ لوگ آخری کام ہونے کا سو فیصد یقین پہلے ہی کر لیتے ہیں، مثال کے طور پر ایک شخص کی ٹیبل پر شراب کی بوتل پڑی ہو، تو فوراً یہ سمجھ لیتے ہیں کہ مذکورہ شخص نے شراب پی ہے، حالانکہ شراب کی بوتل کسی ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کی بھی ہوسکتی ہے، جسے شراب کی بوتل سمجھا جارہا ہے وہ کسی اور چیز کی بھی ہوسکتی ہے، شراب والے گلاسوں میں کوکا کولا، فانٹا، سپرائیٹ بھی پی جاسکتی ہے، نان الکحلک ڈرنک یا سادہ پانی بھی انہیں گلاسوں میں پیا جاسکتا ہے، فرض کریں اس شخص نے شراب بھی پی لی ہے تو دیکھنے والوں کو کیا تکلیف ہے، ہر بندہ اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے، دوسروں کو اسکے معاملے میں ٹھیکیدار بننے کی اجازت کس نے دی ہے، جس نے پینی ہے پی لے جس نے نہیں پینی نہ پیئے۔ 

پیارے پاکستان میں صرف مری بریوری شراب کی فیکٹری میں سالانہ دس ملین لیٹر بیئر اور سینکڑوں ٹن وسکی، واڈکا اور برانڈی پیدا ہوتی ہے، لاکھوں ٹن شراب باقی جگہوں پر پیدا ہوتی ہے، ہزاروں ٹن باہر سے امپورٹ کی جاتی ہے، ملکی آبادی پچانوے فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے، کیا پانچ فیصد غیر مسلم یہ کڑوروں ٹن شراب پی جاتے ہیں؟؟ شراب کے اعدادوشمار سے لگتا ہے کہ کم ازکم چالیس پچاس فیصد پاکستانی آبادی شراب پیتی ہے، لیکن سوشل میڈیا پر یا نیوز تصاویر اور ویڈیوز میں کسی کے آگے ٹیبل پر شراب کا گلاس یا بوتل نظر آجائے تو ہنگامہ ہوجاتا ہے، جیسے سارے ملک میں ولی اللہ رہتے ہیں اور ایک شخص ہی شراب پیتا ہے جو پکڑا گیا ہے۔

بدگمانی کی ایک اور مثال کسی خاتون کے ساتھ چلنا یا اسکے ساتھ تصاویر بنوانے سے متعلق ہے، ایسے ہی کچھ لوگ جب کسی شخص کی کسی خاتون کے ساتھ تصاویر یا ویڈیوز دیکھتے ہیں تو آخری بات پر پہلے ہی یقین کرلیتے ہیں کہ اس شخص کے مذکورہ خاتون کے ساتھ جنسی تعلقات ہیں، حالانکہ زیادہ تر کیسیز میں ایسے الزامات کی حقیقت بہتان کے سوا کچھ نہیں ہوتی، پاکستان میں شاید زور زبردستی ہوجاتی ہے، لیکن یورپ میں انسان کی اپنی بیوی کے ساتھ بھی جنسی عمل اگر اسکی مرضی کے بغیر کیا جائے تو ریپ کا پرچہ درج ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ خاتون یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ پہلی دفعہ جنسی عمل دونوں کی مرضی سے ہوا تھا لیکن آدھے گھنٹے بعد دوسری بار جنسی عمل کرنے میں میری مرضی نہیں تھی لہذا اسے ریپ تصور کیا جائے?۔

پاکستان میں تعلیم تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے، لوگوں میں شعور آرہا ہے، پاکستانی خواتین اب گھروں سے نکل کر مردوں کے شانہ بشانہ تعلیمی اور کاروباری اداروں میں نوکریاں کررہی ہیں، سوشل میڈیا پر پہلے کی نسبت خواتین کی موجودگی بہت زیادہ ہے، ایسے میں پاکستانی مردوں کو اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے، کسی خاتون کی کسی محفل میں یا تنہائی میں کسی مرد کے ساتھ تصویر بن جانے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ انکے آپس میں جنسی تعلقات ہیں، ایسے ہی کسی کے سامنے شراب کی بوتل یا گلاس کی تصویر نظر آنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس شخص نے شراب پی لی ہے، اپنے ذہن کو وسیع کیجیئے آگے بڑھیے، دنیا کہیں کی کہیں پہنچ چکی ہے آپ ابھی تک دوسروں کیلئے بدگمانیاں پالنے میں مصروف ہیں، مثبت سوچ اپنا کر دیکھیں اس سے آپکی شخصیت میں نکھار نظر آنا شروع ہوجائے گا، دوسروں پر اعتبار اور انکی عزت کرنے سے نہ صرف معاشرے میں انقلاب آئے گا بلکہ آپکی زندگیوں میں بھی سکون اور خوشیاں آنا شروع ہوجائیں گی۔

#طارق_محمود

اپنا تبصرہ بھیجیں