Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
48

عوام سے انصاف کریں

آج میں عوام کا مقدمہ عوام کے سامنے رکھنا چاہ رہا ہوں اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں سے استدعا ہے کہ چونکہ جس فریق کا مقدمہ ہے وہ اس قابل نہیں کہ وہ اپنا کیس لڑ سکے وہ نہ ہی اس قابل ہے کہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر آواز بلند کر سکے یا کہیں احتجاج کر سکے جبکہ انصاف فراہم کرنے والے ہی اس فریق پر ظلم کر رہے ہیں اس لیے اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہمیں بھی پتہ ہے کہ جب ظلم خوشی خوشی برداشت کیا جا رہا ہو تو وہاں انصاف کی خواہش بھی بے سود ہے پھر بھی ہم نے سوچا شاید نکارخانے میں طوطی کی آواز سنی جائے تو عرض یہ ہے کہ ابھی گرمیوں کا آغاز بھی نہیں ہوا کہ عذاب شروع ہو چکا ہے شاید عوام کو آنے والے دنوں کی ریہرسل کروائی جا رہی ہے ابھی اپریل ہے  اور اتنی گرمی بھی نہیں پڑ رہی لیکن بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور ٹرپنگ نےجینا دوبھر کر رکھا ہے ویسے کہنے کو ہمارے پاس بجلی فالتو ہے سولر سے اتنی بجلی پیدا ہونا شروع ہو چکی ہے کہ اب طریقے ڈھونڈے جا رہے ہیں کہ سولر کی حوصلہ شکنی کی جائے ہر چیز فالتو ہے لیکن عوام کو میسر نہیں اور نہ ہی بتایا جا رہا ہے کہ خرابی کہاں ہے بجلی کی بار بار ٹرپنگ نے لوگوں کو چڑچڑا بنا دیا ہے کروڑوں روپے کے ہوم اپلائنسز جل گئے ہیں لیکن مجال ہے کہ کسی کے کان پر جوں بھی رینک رہی ہو کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے کون اس کا ذمہ دار ہے جب بھی کسی ذمہ دار سے پوچھنے کی کوشش کی جائے تو جواب ملتا ہے کہ بجلی کا لوڈ بڑھ گیا ہے ترسیلی سسٹم پرانا ہو چکا ہے اس لیے وہ برداشت نہیں کر سکتا اور بار بار ٹرپ کر جاتا ہے بندہ پوچھے کہ جب آپ بجلی کی پوری سے بھی زیادہ قیمت وصول کر رہے ہیں اس پر ٹیکسوں کی بھی بھرمار کر رکھی ہے بجلی چوری اور لائن لاسز کا بوجھ بھی صارف پر مسلط کر رکھا ہے حالانکہ یہ سراسر ترسیلی کمپنیوں کی نا اہلی ہے اور وہ اپنی نااہلی کی سزا صارف کو دے رہے ہیں چونکہ بجلی کمپنیوں کی اجارہ داری ہے اور وہ حکومت کے انتظامی اختیارات استعمال کرکے عوام کا خون چوسنے کا لائسنس رکھتی ہیں اس لیے تمام تر نااہلیوں ناکامیوں اور بے اعتدلیوں کی سزا صارفین کو دی جا رہی ہے دنیا میں کسی بھی ضابطہ انصاف کو سامنے رکھ لیں یہ کہیں بھی نہیں کہ اشیاء فروخت کرنے والے کے نقصان اس کی نا اہلی کی سزا خریدار کو دی جائے لیکن چونکہ پاکستان کا باوا آدم ہی نرالا ہے یہاں صارف کو غلام سمجھ کر زبردستی چیز بھی فروخت کی جا رہی ہے ساتھ اس کو پابند کیا جا رہا ہے کہ یہ آئٹم نہ تو آپ کسی اور سے خرید سکتے ہیں اور نہ ہی خود بنا سکتے ہیں آپ ہماری پراڈکٹ ہماری مرضی سے خریدیں گے اور ہمارے ریٹس پر خریدیں گے کیا یہ دوغلی پالیسی نہیں کہ کسانوں کو کہا جا رہا ہے کہ ان کی گندم ٹکے ٹوکری اس لیے ہوئی ہے کہ اوپن مارکیٹ میں انھیں ریٹ نہیں مل رہا جب کسانوں کو ان کی فصلوں کی خریدوفروخت کے لیے اوپن مارکیٹ کا اصول واضح کیا گیا ہے تو پھر بجلی اور پٹرولیم کی خریدوفروخت کو بھی اوپن مارکیٹ کے اصولوں پر اوپن کر دیں جو بہتر سپلائی اور سستی بجلی کی فراہمی کو یقینی بنائے گا صارفین اس سے خریدیں گے۔

یہاں الٹا اصول ہے آپ نے بجلی بھی ان سے خریدنی ہے ان کی مرضی کے ریٹس پر خریدنی ہے اور دستیابی پر بات نہیں کر سکتے بندہ پوچھے کہ جب ایک دن بجلی کا بل جمع نہ کروانے پر آپ صارف کو جرمانہ کر دیتے ہیں تو یہی حق صارف کو بھی پہچتا ہے کہ وہ سہولت فراہم نہ کرنے پر آپ کو بل ادا نہ کرے لیکن کیا کیا جائے دوکان ایک ہے اور ریاست نے پابند کر رکھا ہے کہ آپ نے اسی سے خریداری کرنی ہے اور کوالٹی پر آواز بھی نہیں اٹھانی اور یہ بھی خیال رہے کہ ادائیگی میں رتی برابر بھی سستی کا مظاہرہ کیا تو ڈیفالٹر قرار دے کر ساری زندگی کے لیے آپ کو مطلوبہ سہولت سے محروم کر دیا جائے گا یہی حال گیس کا ہے گیس کے ارجنٹ کنکشنوں کے نام پر صارفین کے کروڑوں روپے محکمہ کے پاس کئی سالوں سے پڑے ہیں لیکن کہا جا رہا ہے کہ گیس کنکشنوں پر پابندی ہے اور دھڑلے سے محکمہ ایڈوانس میں حاصل کیے پیسے اپنے پاس رکھ کر بیٹھا ہے یہ دنیا کا کونسا قانون ہے کہ آپ ایک سہولت فراہم ہی نہیں کر سکتے تو سب سے بڑا جرم اور فراڈ یہ ہے کہ آپ نے صارف کو یہ کہہ کر کہ ہم آپ کو ارجنٹ سہولت میسر کردیں گے آپ 40 ہزار روپیہ فالتو جمع کروا دیں اور پھر آپ کہیں کہ تاحکم ثانی نئے کنکشنز پر پابندی ہے اس لیے آپ کو سہولت میسر نہیں کی جا سکتی اور آپ اپنے ایڈوانس کو بھی بھول جائیں اوپر سے گیس کی دستیابی کے بھی اوقات ہیں یہی حال دیگر اداروں کا ہے واسا بھی ایسا ہی کر رہا ہے پانی کے بل پورے لیے جا رہے ہیں لیکن شدید گرمی میں پانی دستیاب نہیں اور گرمیوں میں اکثر علاقے کربلا بنے ہوتے ہیں لوگوں راتوں کو جاگ جاگ کر پانی بھرتے ہیں کیا پوری ریاست میں کوئی شہریوں کے بھی حقوق ہیں یا نہیں ہر محکمہ من مانی کر رہا ہے اوپر سے کسی شکایت کی کوئی شنوائی نہیں ہر محکمہ کے قواعد وضوابط سرکاری ملازم اور اس محکمہ کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اسے اجارہ دار بنانے کے لیے وضع کیے گئے ہیں محکمانہ عدالتیں بھی مذاق بن کر رہ گئی ہیں ان قواعد وضوابط میں کہیں صارف کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا اگر آپ کی بجلی کا میٹر جل جائے بےشک وہ سپارک کی وجہ سے ہی جلا ہو تو وہ بھی غلطی صارف کی تصور کی جاتی ہے اور صارف نئے میٹر کی قیمت بھی ادا کرنے کا پابند ہے اور اسیسمنٹ بل بھی جو محکمہ تجویز کرے دینے کا پابند ہے حالانکہ وہ بجلی مہیا کرنے والی کمپنی کے اہلکار کی نااہلی کی وجہ سے میٹر سپارک ہو کر جلا ہے لیکن اس میں خواہ مخواہ ہی صارف چور تصور کیا جاتا ہے کہ اس نے جان بوجھ کر میٹر کو آگ لگائی ہو گئی خدارا اس ملک کے عام شہری صارفین کا بھی کچھ سوچ لیں بل کی عدم ادائیگی تو سول نافرمانی تصور کی جاتی ہے لیکن عدم فراہمی کو آپ کیا تصور کریں گے وزیراعظم صاحب بجلی سستی کرنے کا بڑے زور وشور سے کریڈٹ لے رہے ہیں اب تو ٹیلیفون کی بیل کے ساتھ ہی وزیراعظم صاحب اپنی آواز میں باور کرواتے ہیں کہ ہم نے تاریخی معرکے کے طور پر بجلی سستی کر دی ہے لیکن وزیراعظم صاحب یقین کریں آپ کی اس کوشش کا رتی برابر بھی امپیکٹ نہیں آ رہا جب بجلی کی بار بار ٹرپنگ اور لوڈ شیڈنگ میں آپ یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں تو لوگ مذاق آڑا رہے ہوتے ہیں کون سی بجلی خدارا بجلی سستی کرنے کا کریڈٹ لینا ہے تو بجلی کی فراہمی کو یقینی بنائیں ورنہ آپ کا کریڈٹ ڈس کریڈٹ میں بدل جائے گا