214

فواد چوہدری کی گرفتاری

تحریک انصاف نے اپنی دو صوبوں کی حکومتیں کیا ختم کیں پی ڈی ایم کی حکومت نے سمجھ لیا کہ اب ان کو کسی کا شیلٹر نہیں رہا اس لیے یہ مناسب وقت ہے کہ ان کو سبق سیکھایا جائے شاید تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے اراکین کے استعفے واپس لینے کی کوشش کو بھی کمزوری تصور کر لیا گیا کیونکہ قبل ازیں اگر وفاقی حکومت کی جانب سے کوئی انتقامی کارروائی کی بات بھی کی جاتی تھی تو پنجاب حکومت کی جانب سے اس کا بھر پور جواب دیا جاتا تھا چونکہ اب پنجاب میں نگران حکومت قائم ہو چکی ہے تو اب کہیں سے بھی جواب نہیں آئے گا شاید اسی سوچ کے مدنظر فواد چوہدری کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ویسے پاکستان بڑا عجیب ملک ہے اگر مقتدرہ کسی کو مزہ چکھانے پر آجائے تو اس بات پر گرفتار کر لے کہ تم ٹیڑھے کھڑے تھے جس کی وجہ سے قومی سلامتی داو پر لگنے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا اس لیے قومی سلامتی کے لیے گرفتاری لازمی تھی لہذا اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے لیکن اگر کسی کو صرف نظر کرنا مقصود ہو تو دہشتگردوں اور ملک دشمنوں کو بھی پروٹوکول کے ساتھ چھوڑ دیا جاتا ہے یہاں تک کہ ملک توڑنے والوں کو بھی نظرانداز کر دیا جاتا ہے فواد چوہدری کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے جس بات پر ان کے خلاف اسلام آباد میں مقدمہ درج کیا گیا ایسی باتیں سیاستدان ہر وقت اپنی گفتگو میں کرتے رہتے ہیں اگر اس طرح کارروائی ہونا شروع ہو گئی تو سیاستدانوں کے بولنے پر پابندی لگ جائے گی دراصل فواد چوہدری تحریک انصاف کی موثر آواز ہیں حکومت نے فیصلہ کیا کہ فواد چوہدری کو گرفتار کر کے باقیوں کو پیغام دیا جائے کہ خاموشی اختیار کر لو ورنہ پکڑے جاو گے اس گرفتاری کا ایک مقصد ٹیسٹر لگا کر چیک کرنا بھی مقصود تھا کہ تحریک انصاف کی جانب سے کس قسم کا ردعمل آتا ہے اگر حکومت اس ردعمل پر باآسانی قابو پا لیتی ہے تو پھر عمران خان اور دیگر رہنماؤں کو بھی گرفتار کر لیا جائے گا یہ سبق سیکھانے والی بات ہے کہ فواد چوہدری کے چھوٹے بھائی فراز چوہدری کو جہلم سے گرفتار کر لیا گیا اور پولیس نے جس بری طرح انھیں گھسیٹا ان پر تشدد کیا یہ قانونی کارروائی نہیں بلکہ طاقت کا بے دریغ استعمال ہے جسے حکومت اپنے مخالفین کو قابو کرنے کے لیے استعمال کررہی ہے تاکہ خوف وہراس پیدا کیا جائے سیاسی ورکروں کو بتلانا مقصود تھا کہ خاموشی سے بیٹھ جاو ورنہ بہت برا ہوگا فواد چوہدری کی گرفتاری پر تحریک انصاف کی جانب سے بھرپور ردعمل سامنے آیا بلکہ اس سے قبل عمران خان کی گرفتاری کی افواہ پر شدید سردی میں بھی لوگ رات آڑھائی بجے عمران خان کی ڈھال بننے کے لیے زمان پارک پہنچ گئے فواد چوہدری کی گرفتاری پر تحریک انصاف کے ورکرز کے جذبات دیکھنے والے تھے خاص کر فرخ حبیب نے فواد چوہدری سے دوستی کا حق ادا کر دیا وہ فواد چوہدری کو گرفتار کرنے والی پولیس کی ریکی کرتے رہے پولیس نے انھیں جل دینے کی بڑی کوشش کی لیکن وہ سائے کی طرح فواد چوہدری کا پیچھا کرتے رہے جب عدالت نے فواد چوہدری کو پیش کرنے کا حکم دیا لیکن پولیس نے عدالتی احکامات کے باوجود انھیں زبردستی اسلام آباد لیجانے کی کوشش کی تو فرح حبیب نے موٹروے پر ان کی گاڑی کو روک کر پولیس کو انھیں عدالت میں پیش کرنے کا کہا پولیس نے فرخ حبیب کے ساتھ جو سلوک کیا جس طرح انھیں زبردستی سائیڈ پر کر کے گاڑی بھگا دی اس طرح کے جذبات تو سگے رشتہ داروں کے نہیں ہوتے جس قسم کے جذبات کا مظاہرہ فرخ حبیب نے کیا اسی طرح لاہور میں میاں حماد اظہر کی جدوجہد بھی قابل دیدنی تھی تحریک انصاف کے ورکرز نے پوری طرح وفاقی حکومت کو اپنے ردعمل کے ذریعے پیغام بجھوا دیا ہے کہ تحریک انصاف کو روائیتی سیاسی جماعت نہ سمجھا جائے جس کے ساتھ روائیتی ہتھکنڈے استعمال کر کے انھیں ڈرایا دھمکایا جا سکتا ہے تحریک انصاف ایک مزاحمتی جماعت بن چکی ہے اوپر سے عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ پورے ملک میں اس کے چاہنے والے موجود ہیں اگر عمران خان نے احتجاج کی کال دی تو پورے ملک سے لوگ نکلیں گے حکومت کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے وقت کی نزاکت کا خیال کرنا چاہیے یہ وقت کسی پاپولر عوامی فورس کو دبانے کا نہیں ایسے حالات میں جب مہنگائی عروج پر ہو معیشت کا بیڑا غرق ہو چکا ہو بے روزگاری عام ہو اشیاء کی دستیابی غیر یقینی ہو ایسے حالات میں بیزار عوام کو سڑکوں پر آنے کے لیے محض کوئی بہانہ درکار ہوتا ہے ایسے حالات میں حکومت کی جانب سے انتقامی کارروائی کا ردعمل کوئی اور حیثت بھی اختیار کر سکتا ہے اس ماحول میں عدالتوں پر ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ خلاف قانون کوئی کارروائی نہ ہونے دیں تاکہ کسی کو من مانی کرنے کی جرآت نہ ہو سکے