دنیا بھر میں اسلحہ بنانے اور اس کی تجارت کرنے والے ممالک کی ہر ممکن کوشش یہی ہوتی ہے کہ مختلف اقوام اور ملکوں کے درمیان ایسے فتنوں اور اختلافات کو ہوا دی جائے کہ وہ اپنے دفاع اور تحفظ کے لئے جدید ترین اسلحہ خریدنے پر مجبور ہو جائیں۔ جب کسی ملک میں جنگ کے شعلے بھڑکنے لگتے ہیں اور اس کی تپش اسلحہ ساز ملکوں تک پہنچتی ہے تو اسلحے کے امپورٹرزکو اپنی بقا کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ گزشتہ نصف صدی کے دوران امن کے فروغ اور دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر اسلحے کے تاجر ممالک نے سازشوں کا جو جال پھیلایا ہے اب اس کی اصلیت اور حقائق کھل کر دنیا کے سامنے آ رہے ہیں۔ اب یہ حقیقت کوئی معمہ نہیں رہی کہ کون کون سے ملک دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ بنا کر فروخت کرتے اور کون سے ممالک اس جدید اسلحے کے خریدا رہیں۔ عالمی سطح پر جس قدر وسائل اورسرمایا اسلحہ سازی، فوج اور دفاع پر خرچ یا ضائع کیا جاتا ہے اگر اسے انسانیت کی فلاح و بہبود پر صرف کیا جائے تو پوری دنیا خوشحالی اور امن کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ یہ پروپیگنڈا طویل مدت سے جاری ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری یہ دنیا غیر محفوظ ہوتی جا رہی ہے اور اس کرہئ ارض کا امن غارت ہوتا جا رہا ہے لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ وہ کون سی طاقتیں ہیں جو جدید سے جدید ترین اسلحہ بنا کر مختلف ملکوں کے درمیان جنگوں کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کسی عالمی یا علاقائی جنگ کے نتیجے میں کوئی مسئلہ یا تنازع حل نہیں ہوا بلکہ جنگی جارحیت کی وجہ سے لاکھوں بے گناہ لوگ مارے گئے، اپاہج اور بے گھر ہوئے اور رہی سہی سلامتی اور امن کا جنازہ نکل گیا۔ جب کوئی طاقت ور ملک کسی کمزور ملک پر جنگ مسلط کرتا ہے تو اس کے نتائج کئی نسلوں کو بھگتنا پڑتے ہیں، افغانستان، عراق اور لیبیا میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جو کچھ کیا اس کی وجہ سے یہ ہنستے بستے ممالک تباہی و بربادی اور عدم استحکام کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اگر دنیا کے دس بڑے اسلحہ ساز ممالک بالترتیب یعنی امریکہ، فرانس، روس، چین، جرمنی، اٹلی، برطانیہ، سپین، اسرائیل اور ساؤتھ کوریا خطرناک ہتھیاروں اور جنگی جارحیت کے لئے استعمال ہونے والے سازو سامان کی ایکسپورٹ اور مینوفیکچرنگ بند کر دیں تو عالمی اور دائمی امن قائم ہو سکتا ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جس مہم کا ڈھونگ رچایا تھا اس کے نتیجے میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کم یا ختم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اس مہم کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے سرگرم عمل ہے۔ برطانیہ سمیت جن ممالک نے عراق اور لیبیا پر حملے کے وقت امریکہ کا ساتھ دیا تھا انہیں اب تک اپنے عوام کی طرف سے شدید ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور لیبر پارٹی اب تک اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ وہ ممالک جو سب سے زیادہ اسلحہ بناتے اور کامیابی کے ساتھ اس کی تجارت کر کے سالانہ اربوں ڈالر کا منافع کماتے ہیں وہی اس وقت عالمی امن کے علمبردار اور ٹھیکیدار بن کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ ایسی کون سی مجبوری ہے کہ اس وقت انڈیا دنیا بھر میں اسلحہ اور دفاعی سازو سامان امپورٹ کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اسی طرح سعودی عرب، قطر، جاپان، ساؤتھ کوریا اور دیگر ممالک ہر سال اربوں ڈالر کا اسلحہ خریدتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ گزشتہ نصف صدی میں اِن ممالک نے جو اسلحہ خریدا اور اپنے قومی وسائل کا بڑا حصہ اس پر خرچ کیا اس سے ان ملکوں کے معاشی اور سماجی حالات پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ گزرنے والے پچاس برسوں میں جو جنگی طیارے، جدید ہیلی کاپٹرس، ٹینک، توپیں، میزائل، آبدوزیں، بحری بیڑے، ڈرونز اور دیگر خطرناک ہتھیار بنائے اور خریدے گئے اُن سے اس کرہ ارض پر صرف تباہی اور بربادی ہی پھیلی ہے۔ ہمیں اس افسوس ناک حقیقت پر بھی غور کرنا چاہیئے کہ گزشتہ چند دہائیوں میں بھارت اور پاکستان نے جو اسلحہ اور ہتھیار خریدے ہیں وہ اب نہ صرف اپنی افادیت کھو چکے ہیں بلکہ ایک طرح سے بے کار ہو گئے ہیں اسی لئے اسلحہ اور دفاعی ساز و سامان خریدنے والے ملکوں کو بہرحال اپنے ڈیفنس بجٹ میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔معلوم نہیں کس مصلحت کی تحت پاک فوج کی اعلیٰ افسران کی ایک بڑی تعداد کو ہر سال مختلف طرح کی عسکری کورسز اور تربیت کی لئے امریکہ اور برطانیہ بھیجا جاتا ہے۔امریکہ حیران کن بات یہ ہے کہ جتنی رقم سے ایک ایف 16 طیارہ خریدا جاتا ہے اتنی دولت سے ایک گاؤں میں جدید ہسپتال تعمیر ہو سکتا ہے اور جتنے وسائل سے اس طیارے کی دیکھ بھال کی جاتی ہے اتنی رقم سے اس ہسپتال کے سالانہ اخراجات پورے ہو سکتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والی مصنوعات میں سگریٹ پہلے نمبر پر ہے، سگریٹ نوشی انسانی صحت کے لئے سو فیصد مضر ہے لیکن حکومتیں، سگریٹ یا تمباکو کا کاروبار کرنے والی کمپنیز سے ایکسائز اور ٹیکس کی مد میں خطیر رقم حاصل کرتی ہیں اس لئے وہ اس کی پروڈکشن یا مینوفیکچرنگ پر پابندی نہیں لگاتیں، یہی حال اسلحہ سازی کے کاروبار کا ہے۔ یہ کاروبار چونکہ بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے اس لئے وہ کسی بھی صورت اسلحے اور دفاعی ہتھیاروں کی تجارت کو کم نہیں ہونے دیں گے بلکہ یہ طاقتیں ہر ممکن طریقے سے یہ کوشش کرتی ہیں کہ اس تجارت کو فروغ ملے تاکہ اُن کے مذموم مقاصد کی تکمیل ہوتی رہے۔ برطانیہ اور اسلحہ بنانے والے دیگر ملکوں میں بہت سے اینٹی وار گروپس انسانی حقوق کے تحفظ اور عالمی امن کی علمبردار تنظیمیں سرگرم عمل ہیں کسی بھی ملک کی خارجہ اور دفاعی پالیسی اپنی جگہ لیکن آج بھی ہر قوم اور عوام کی اکثریت جنگ اور جارحیت کے خلاف ہے۔ امریکہ ہو یا برطانیہ وہاں کے لوگوں میں اپنے حکمرانوں کے جارحانہ عزائم کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا جاتا ہے۔ چند ہی ماہ پہلے جب برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک نے اسرائیل کی جنگی جارحیت کی حمایت کے لئے یروشلم کا دورہ کیا تھا تو لندن اور دیگر شہروں میں اس حمایت کے خلاف مظاہروں اور شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا اور اب حال ہی میں رشی سوناک نے کہا کہ وہ 2030 تک برطانیہ کے دفاعی بجٹ میں 2.50 فیصد اضافہ کریں گے۔ اُن کے خیال میں برطانوی افواج اور ملکی دفاع کو جن چیلنجز کا سامنا ہے اس کے لئے یہ اضافہ ناگزیر ہے۔ یوکرین پر روس کے حملے سے پوری مغربی دنیا میں اضطراب اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی تھی لیکن جب یہی مغربی طاقتیں کسی مسلمان ملک پر حملہ آورر ہوتی ہیں تو تمام خوشحال اور ترقی یافتہ ملکوں کے اربابِ اختیار کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عراق پر حملہ کیا تھا تو اس جارحیت کے خلاف وسطی لندن میں ایسا تاریخی مظاہرہ کیا گیا تھا کہ اب تک اس کی مثال نہیں ملتی اور اس احتجاج میں شریک ہونے والے بوڑھوں، بچوں، نوجوانوں اور خواتین کی اکثریت غیر مسلموں کی تھی۔ لاکھوں لوگوں کے اِس پرامن مظاہرے میں کسی ایک سائن بورڈ کو بھی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ یورپ کے خوشحال اور ترقی یافتہ ملکوں نے اپنی تاریخ سے یہ سبق سیکھ لیا ہے کہ ایک دوسرے اور خاص طور پر ہمسایہ ملکوں سے جنگ اور دشمنی کا نتیجہ صرف اور صرف تباہی و بربادی ہی ہوتی ہے اسی لئے یورپ کے بیشتر ممالک جو ماضی بعید میں ایک دوسرے کے حریف تھے اور جنگی جارحیت کے جنون میں مبتلا تھے جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے اب یہ ممالک ایک دوسرے اور خاص طور پر اپنے ہمسایہ ملکوں سے خوشگوار دوستانہ تعلق استوار کر چکے ہیں۔ اِن میں سے بہت سے ملک جدید اسلحہ اور جنگی سازوسامان بھی بناتے ہیں لیکن اِن ہتھیاروں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی بجائے ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کے بیوقوف حکمرانوں اور افواج کو فروخت کرتے ہیں۔ کس قدر عجیب بات ہے کہ بھارت اور پاکستان ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ہر سال اپنے وسائل کا بڑا حصہ اسلحے اور ہتھیاروں کی خریداری پر ضائع کرتے ہیں اور اپنی سرحدوں کے تحفظ کے مغالطے کے باعث بہت زیادہ فوج رکھنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان، بھارت، افغانستان اور خطے کے دیگر ملکوں کو یورپی ممالک کی دور اندیشی اور حکمت عملی سے سبق سیکھنا چاہیئے جنہوں نے فوج اور ہتھیاروں پر بے دریغ وسائل ضائع کرنے کی بجائے اپنی موثر خارجہ پالیسی کے ذریعے جیو اور جینے دو کی حکمت عملی اختیار کی، اپنی سرحدوں کی حفاظت کی غلط فہمی کے نتیجے میں بارڈرز پر فوج تعینات کرنے کی بجائے صرف امیگریشن کاونٹر بنانے کو ہی کافی سمجھا۔ ہمارے ممالک جب تک جنگی جنون میں مبتلا رہ کر دفاع کے نام پر اپنے وسائل بے مقصد برتری اور بالا دستی کی خواہش پر قربان کرتے رہیں گے اس وقت تک اس خطے کے عوام کی اکثریت مسائل، مشکلات اور مصیبتوں کے منجدھار میں پھنسی رہے گی اور ان ممالک کی ترقی، خوشحالی اور استحکام کا خواب اس صدی میں بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو گا۔
٭٭٭