Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
212

آرمی چیف کی تعیناتی

کل تک عمران خان آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے مختلف خدشات کا اظہار کر رہے تھے انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ جو آرمی چیف نواز شریف کی مشاورت سے تعینات ہو گا یہ اس سے یقین دہانی لیں گے کہ عمران خان کو نا اہل کروایا جائے اب نہ جانے کیا ہوا کہ اب خان صاحب کہہ رہے ہیں یقین ہے جو بھی آئے گا وہ عوام کے خلاف نہیں جائے گا ہم آرمی چیف کی تعیناتی پر پیچھے ہٹ گئے ہیں عمران خان کے موقف میں اچانک تبدیلی کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں ایک تو انھیں کسی سیانے نے سمجھایا ہو گا کہ آپ جو مرضی کر لیں اس کا آئینی طریقہ کار موجود ہے اور سارا کچھ طے شدہ اصولوں کے مطابق ہونا ہے لہذا آپ کو خاموشی اختیار کرلینی چاہیے اگر آپ ایسا کریں گے تو آنے والے آرمی چیف کی خواہ مخواہ ناراضی مول لے لیں گے دوسرا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عمران خان کو اعتماد میں لیا گیا ہو کہ آپ تعیناتی کے معاملے کو متنازعہ نہ بنائیں اور ان کے خدشات دور کر دیے گئے ہوں اگر اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل رہنے کا وعدہ کرتی ہے تو اس میں بھی عمران کو فائدہ ہے اور اسٹیبلشمنٹ واضح طور پر اس کا اعلان کر چکی پھر سب سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ موجودہ محاذ آرائی کسی کو سوٹ نہیں کرتی ملک کا بہت نقصان ہو رہا ہے ایسے میں آخر کار معاملات نے طے ہونا ہے الیکشن بھی ہونے ہیں اس لیے نئے آرمی چیف کو سب سے زیادہ اپنے ادارے کی ساکھ اور وقار کا معاملہ درپیش ہو گا ان کی کوشش ہو گی کہ فوج کو تنازعات سے باہر رکھا جائے حالات پل صراط سے گزرنے جیسے ہیں اس لیے سیاستدانوں کو بھی مل بیٹھ کر معاملات طے کرنے کی طرف لایا جائے گا اور اس پر کام بھی ہو رہا ہے توقع ہے کہ نئی تعیناتی کے بعد معاملات سمٹنا شروع ہو جائیں گے حکومت کی کوشش ہے کہ وہ عمران خان کو کسی نہ کسی طرح یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں کہ عمران خان بھی دوسرے سیاستدانوں جیسا ہے تاکہ اس کی پاپولریٹی میں کمی لائی جا سکے انتخابات میں عمران خان کے خلاف عوام میں کیس پیش کیا جا سکے اس کے لیے تمام تر توانائیاں صرف کی جا رہی ہیں دوبئی کے ایک تاجر کی تحفے خریدنے کی جو کہانی سامنے آرہی ہے اس کے دو پہلو ہیں ایک پہلو تو قانونی ہے اور دوسرا اخلاقی ہے اگر قانونی پہلو کا جائزہ لیا جائے تو عمران خان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی کیونکہ عمران خان نے قانون کے مطابق رقم جمع کروا کر توشہ خانہ سے تحائف حاصل کیے جب ایک مخصوص رقم دے کر ہی تحائف خریدے گئے تو وہ قانونی طور پر عمران خان کی ملکیت تصور ہوں گے وہ یہ تحفے کسی کو آگے گفٹ کر دیں کسی کو فروخت کر دیں ان پر کوئی قدغن نہیں وہ اسے اندرون ملک فروخت کریں یا بیرون ملک اس پر بھی کوئی پابندی نہیں موجودہ کہانی کی اگر کڑیاں ملائی جائیں تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ہو سکتا ہے عمران خان نے پاکستان میں جس کو تحائف فروخت کیے اس سے مذکورہ شخص عمر فاروق مرزا نے خرید لیے ہوں اور اس پر کوئی کہانی گھڑی جا رہی ہو ہو سکتا ہے کہ عمر فاروق بھی کسی مجبوری میں استعمال ہو رہا ہو اس ایشو پر سیاست کرنے والوں کو بھی پتہ ہے کہ اس پر عمران خان کو پکڑا نہیں جا سکتا البتہ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ عمران خان نے مہنگے داموں فروخت کرکے اس کو انکم ٹیکس گوشواروں میں کم ظاہر کیا ہے اور الیکشن کمیشن میں ظاہر نہیں کیا تو پھر کوئی قانونی کارروائی ہو سکتی ہے لیکن اگر یہ تقاضے پورے کیے گئے ہیں تو قانونی طور پر کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی البتہ اس سارے ایشو کا ایک اخلاقی پہلو بھی ہے کاش نیٹ کلین عمران خان نے یہ کام نہ کیا ہوتا اخلاقی طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان یہ تحفے اپنے پاس رکھ سکتے تھے لیکن آگے فروخت کرنا درست اقدام نہیں حالانکہ ماضی کے تمام حکمران توشہ خانہ سے اس سے قیمتی قیمتی تحائف چند ٹکوں کے عوض لے جاتے رہے ہیں عمران خان نے تو پہلے ان کی قیمت کا 20 فیصد اور پھر 50 فیصد قومی خزانے میں جمع کروا کر تحائف حاصل کرنے کی پابندی لگا دی ہے اگر عمران خان نے پیسے کمانے کی نیت سے ایسا کرنا ہوتا تو ان کے پاس ایسے ہزاروں طریقے تھے کسی ایک بڑے پراجیکٹ میں اربوں روپے کی کمیشن لی جا سکتی تھی لیکن آج تک مالی بدعنوانی کا کوئی ایک کیس بھی سامنے نہیں آیا اس کے برعکس ماضی کے حکمرانوں پر اربوں روپے کے مالی فوائد حاصل کرنے بیرون ملک جائیدادیں بنانے اور منی لانڈرنگ کے الزامات لگتے رہے ہیں بلکہ انھیں آج تک ان الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس ایشو پر پی ڈی ایم کی ساری سیاسی جماعتوں نےعمران خان پر چڑھائی کر رکھی ہے وہ عوام میں عمران خان کو بدعنوان ثابت کرکے اپنی صفوں میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں تاکہ انتخابات میں الیون پلینگ فیلڈ میسر آسکے لگتا ہے کہ اس سارے معاملے میں عمران خان کو کسی نے مروایا ہے اگر عمران خان کو پیسے کا لالچ ہوتا تو قانونی طور پر جمائما کی پراپرٹی سے قانونی طور پر ملنے والے اربوں ڈالر لینے سے انکار نہ کرتا مجھے یہاں ایک واقعہ یاد آ رہا ہے ایک گاوں کے کسی بندے نے کھیتوں میں پانی لگا رکھا تھا گرمیوں کے دن تھے کھالے کے ساتھ چھوٹا کچا راستہ تھا وہاں سے گزرنے والی چند مسافر خواتیں نے اپنا زیور اتارا اور ایک گٹھڑی بنا کر ایک جھاڑی کے پیچھے رکھ کر نہانے لگ پڑیں وہ نہا کر دوبارہ اپنے سفر پر روانہ ہو گئیں اس کسان نے کھالے پر چکر لگایا تو اس نے جھاڑی کے پیچھے گھٹڑی پڑی دیکھی اس میں کافی زیورات تھے اسے خیال آیا کہ یہ یہاں سے گزرنے والی خواتین کے ہیں وہ کئی میل تک بھاگ کر خواتین کے پاس پہنچا اور انھیں کہا کہ بیبیوں آپ کوئی چیز تو نہیں بھول آئیں وہ رونے لگیں کہ ہائے ہمارا زیور وہاں رہ گیا ہے اس شخص نے وہ زیور ان خواتین کے حوالے کیا اور واپس اپنے کھیتوں میں آگیا اس دوران اس کے ڈیرے کا ایک بندہ اپنی تہمند کی ڈب سے چار آنے سائیڈ پر رکھ کر نہا رہا تھا اس کسان نے مذاق کرنے کی نیت سے چار آنے اٹھا کر جیب میں ڈال لیے اس آدمی نے کسان سے پوچھا تم نے میرے پیسے اٹھائے ہیں اس نے کہا نہیں دو چار بار پوچھنے پر وہ ناں کرنے سے پھنس چکاتھا اس بندے نے کہا کہ تم قسم اٹھاو کہ تم نے میرے پیسے نہیں اٹھائے اس بیچارے کو قسم اٹھانی پڑ گئی اللہ سے ہروقت ڈرتے رہنا چاہیے