رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔ ان میں سے 6 بیٹے بیٹیاں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے پیدا ہوئے اور ایک بیٹے ابراہیم رضی اللہ عنہ، حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے پیدا ہوئے تھے۔ سبھی بیٹے بچپن میں فوت ہوگئے جبکہ سبھی بیٹیاں زندہ رہیں۔ آپ صلی اللہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تو لوگوں نے انہیں زید بن محمد کہنا شروع کر دیا۔
اس پر اللہ تعالی نے قرآن کی سورۂ آل احزاب کی مندرجہ ذیل آیات نازل کیں۔
مَّا جَعَلَ اللّـٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَيْنِ فِىْ جَوْفِهٖ ۚ وَمَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ اللَّآئِىْ تُظَاهِرُوْنَ مِنْهُنَّ اُمَّهَاتِكُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَآءَكُمْ اَبْنَآءَكُمْ ۚ ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللّـٰهُ يَقُوْلُ الْحَقَّ وَهُوَ يَـهْدِى السَّبِيْلَ (4)
خدا نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے۔ اور نہ تمہاری عورتوں کو جن کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو تمہاری ماں بنایا اور نہ تمہارے لے پالکوں کو تمہارے بیٹے بنایا۔ یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں۔ اور خدا تو سچی بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا رستہ دکھاتا ہے۔4
اُدْعُوْهُـمْ لِاٰبَآئِهِـمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّـٰهِ ۚ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوٓا اٰبَآءَهُـمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِى الدِّيْنِ وَمَوَالِيْكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيْمَآ اَخْطَاْتُـمْ بِهٖ وَلٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللّـٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا (5)
مومنو! لےپالکوں کو اُن کے (اصلی) باپوں کے نام سے پکارا کرو۔ کہ خدا کے نزدیک یہی بات درست ہے۔ اگر تم کو اُن کے باپوں کے نام معلوم نہ ہوں تو دین میں وہ تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور جو بات تم سے غلطی سے ہوگئی ہو اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں۔ لیکن جو قصد دلی سے کرو (اس پر مواخذہ ہے) اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔ 5
ان آیات کے نازل ہونے کے بعد لوگوں نے دوبارہ حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کو زید بن حارثہ کہنا شروع کر دیا تھا۔
حدیث شریف میں بھی اس بارے میں واضح احکامات موجود ہیں۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے دوسرے شخص کو دانستہ طور پر اپنا باپ بنایا وہ کافر ہو گیا۔‘‘ (بخاری، المناقب: ۳۵۰۸)
حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ آدمی اپنے حقیقی باپ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی طرف اپنی نسبت کرے۔‘‘(بخاری، المناقب: ۳۵۰۹)
عن سعد رضي الله عنه، قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: «من ادعى إلى غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام» ترجمہ:جس شخص نے اپنے آپ کو( حقیقی والد کے علاوہ)کسی اور شخص کی طرف منسوب کیا، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا والد نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔ صحيح البخاري (8/ 156)
عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لا ترغبوا عن آبائكم، فمن رغب عن أبيه فهو كفر» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اپنے باپ کا کوئی انکار نہ کرے کیونکہ جو اپنے باپ سے منہ موڑتا ہے(اور اپنے کو دوسرے کا بیٹا ظاہر کرتا ہے تو)یہ کفر ہے۔“
صحيح البخاري (8/ 156)
قرآن ِ کریم میں اللہ تعالی ٰ نے لے پالک یا اڈاپٹ شدہ بچے کے بارے میں حکم دیا ہے کہ اُس کو اُس کے حقیقی والد کی طرف منسوب کیا جائے اور اسکی پرورش کرنے والا حقیقی باپ کے درجے میں نہیں ہو سکتا۔ لہذا اُس کو والد کےطور پر پکارنا اور کاغذات میں لکھنا جائز نہیں بلکہ گناہ ہے۔ حدیث شریف میں ایسے شخص کے لئے جنت کو حرام قرار دیاگیا ہے جو اپنے والد کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے۔ لہذا ہر موقع پر بچہ کی ولدیت میں اصل والد ہی کا نام لکھا جائےگا۔
اگر کوئی دوسرے برخوردار کو پیار و محبت سے بیٹا کہہ دے تو اس میں بظاہر کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ حرج اس وقت ہوتا ہے جب کسی لے پالک کو حقیقی بیٹے کے حقوق دے دئیے جائیں۔ باپ وہی ہے جس کے نطفہ سے لے پالک پیدا ہوا ہے اور ماں وہی ہے جس نے اسے جنم دیا ہے۔ اس کے علاوہ نہ کوئی اس کا حقیقی باپ بن سکتا ہے اور نہ کوئی دوسری عورت اس کی ماں بن سکتی ہے۔ اوپر بیان کی گئیں آیات کریمہ میں بھی یہی حکم دیا گیا ہے کہ ہم ہر شخص کو اس کے حقیقی باپ کی طرف منسوب کریں۔ کسی دوسرے شخص کی طرف اس کی نسبت نہ کریں۔ اسی طرح لے پالک کو بھی حکم ہے کہ وہ اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی طرف اپنی نسبت نہ کرے۔ (واللہ اعلم)