Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
239

عدلیہ کی تقسیم

کبھی کسی نےسوچا ہے کہ پاکستان میں سیاست گالی کیوں بن گئی ہے کیونکہ دنیا میں سیاست خدمت کا نام ہے لیکن پاکستان کی سیاست ایک بے رحم پیشہ ہے یہاں سیاستدان اپنے مفاد کی خاطر ریاست کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا پاکستان کا دولخت ہونا اس کی واضح دلیل ہے ہمارے سیاستدان اپنے مفاد کے لیے ملک کا ناقابل تلافی نقصان کرنے سے بھی باز نہیں آتے اعلی درجے کی منافقت سیاست سے پھوٹتی ہے بے اصولی، جھوٹ، وعدہ خلافی، گالم گلوچ تشدد،ظلم، زیادتی ہماری سیاست کا طرہ امتیاز ہے اب تو پاکستانی سیاست کی تشریح اور اوصاف حمیدہ کے لیے ڈکشنری میں سے الفاظ بھی ختم ہو گئے جو جو الٹ بازیاں اور جگاڑ لگائے جا رہے ہیں ان کو بیان کرنا مشکل ہو رہا ہے اس کی تصویر کشی مشکل ہو رہی ہے اس کے لیے روائیتی الفاظ نامکمل لگتے ہیں اس ماحول کی تصویر کشی کے لیے نئی ڈکشنری نئے الفاظ ایجاد کرنا پڑیں گے جس معاشرے میں اصول ضابطے روایات قانون آئین سب سے کھلواڑ کرکے اپنا الو سیدھا کرنا ہی جائز ہو جائے وہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس جیسے محاورے بھی اپنے معنی کھو دیتے ہیں ہم دنیا سے نرالی سیاست کی فصلیں بو رہے ہیں ہر چیز کو ہم اپنی مفاداتی سیاست کی بھینٹ چڑھا چکے اب ہم نے پاکستان کے دو اہم سپریم اداروں کو بھی ٹارگٹ کر لیا ہے سپریم کورٹ میں واضح تقسیم بتا رہی ہے کہ کھیل کہاں تک سرائیت کر چکا ہے ماضی میں بھی اسی قسم کے ماحول کا سامنا کر چکے ہیں جب میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے تو سپریم کورٹ کے ججز کو تقسیم کر کے جو تماشہ لگایا گیا جس طرح سپریم کورٹ پر حملہ کرکے عدالتوں کی بے توقیری کی گئی وہ تاریخ کا حصہ ہے لیکن ہم نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ آج اس سے دو ہاتھ آگے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے پہلے تو حکمت عملی کے تحت ججز کے کردار کو متنازعہ بنانے کے لیے مہم چلائی گئی کئی آڈیو ویڈیو لیک کی گئیں پھر عدالتوں سے مرضی کے فیصلے حاصل کرنے کے لیے عدلیہ کو دباو میں لانے کے لیے چڑھائی کی گئی مقصد اس کا یہ ہے ججز اپنی عزت بچانے کے لیے یہ کیسز ہی نہ سنیں دراصل کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ جو مرضی کرتے جائیں ان کے ایکشن کو صرف نظر کر دیا جائے موجودہ صورتحال میں جس قسم کے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں ایک ادنی سے طالبعلم کے طور پر جو سمجھ میں آتا ہے وہ یہی ہے کہ موجودہ حکومت چاہتی ہے کہ غیر معینہ مدت تک جب تک حکومت چاہے انتخابات نہ کروانے جائیں دوسرا عمران خان کو اتنا تنگ کیا جائے کہ وہ پاکستان سےچلے جانے میں اپنی عافیت سمجھے اسے اتنا زچ کر دیا جائے کہ وہ ملک چھوڑ دے چوتھا کسی طرح تحریک انصاف کو توڑ کر اس کی عوامی طاقت کو کمزور کیا جائے اس کے لیے کم از کم دوسال تک انتخابات نہ کروانے جائیں اور اس دوران عمران خان کو کینڈے میں کر لیا جائے اسی لیے پنجاب کے انتخابات کو اکتوبر تک ملتوی کیا گیا ہے چونکہ ستمبر میں صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی کی مدت مکمل ہو جائے گی اور صدارتی الیکٹرول کالج نامکمل ہونے کی وجہ سے نئے صدر کا انتخاب نہیں ہو سکے گا لہذا صادق سنجرانی چیرمین سینٹ قائمقام صدر بن جائیں گے حکومت اس سے ایمرجنسی ڈیکلیر کروائے گی اور چھ ماہ کی مدت میں توسیع حاصل کر لے گی اس کے بعد مزید توسیع کی توثیق کروالے گی ان کے عزائم کی راہ میں آخری رکاوٹ ختم ہو جائے گی گلیاں سنجیاں ہو جائیں گی اور مرزا یار جیسے دل چاہے گا من مرضی کرتا پھرے گا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی اپنی مدت پوری کرکے ریٹائرڈ ہو چکے ہوں گے پھر سارا کچھ اپنا ہو گا پھر تحریک انصاف کو قابو کرنے میں آسانی ہو گی اتنی دیر میں تحریک انصاف کے جذبے بھی ماند پڑ چکے ہوں گے ان کے خیال کے مطابق تحریک انصاف میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو جائے گی اور جب تحریک انصاف کینڈے میں آچکی ہو گی پھر انتخابات میں جایا جائے گا