پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو یہاں کے رہنے والے روسا ہندو تھے یا سکھ تھے چند ایک مسلمان بھی تھے اور ان میں سے بھی زیادہ تر وہ تھے جنھوں نے انگریزوں کے لیے مخبریاں کرکے یا دیگر خدمات کے عوض انعام کے طور پر جاگیریں حاصل کی تھیں گنتی کے چند ایک خاندانی رئیس تھے باقی سب نوازے ہوئے لوگ تھے اس علاقے کی مسلمان کمیونٹی غریب تھی جو لوگ انڈیا سے ہجرت کرکے یہاں آئے وہ تو ویسے ہی لٹے پٹے تھے ان کے پاس کیا ہونا تھا لیکن یہ نو مولود ریاست لوگوں کی امارت کا سبب بن گئی لوٹ مار کی ابتداء اس کے جنم دن سے ہی شروع ہو گئی جو آج تک جاری ہے جعلی ذاتوں اور جعلی کلیموں سے شروع ہونے والی اس لوٹ مار میں ہر آنے والے دن میں اضافہ ہوتا چلا گیا ریاست وقت کے ساتھ ساتھ غریب سے غریب تر ہوتی گئی اور اس کے کرتا دھرتا اس کے ملازم سب امیر سے امیر تر ہوتے گئے تمام ریاستی ادارے زوال کا شکار چلے آرہے ہیں اور تمام نجی ادارے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں دلچسپ امر یہ ہے کہ اس ریاست کے صاحب اقتدار لوگوں کے ادارے چند سالوں میں ریاست بن جاتے ہیں اور جس محکمہ کے وہ انچارج ہوتے ہیں وہ محکمہ زمین بوس ہو جاتا ہے اس کی صلاحیتیں اپنے ذاتی ادارے کی ترقی کے لیے تو بڑی کارآمد ہوتی ہیں لیکن اسی شخص کی سرکاری ادارے کے لیے خدمات تباہی کا باعث بن جاتی ہے ریاست ڈیفالٹ کے دھانے پر کھڑی ہے اور ریاست کے کرتا دھرتاوں کی املاک سات براعظموں تک پھیلی ہوئی ہیں یہ ریاست دودھ کی پیدوار میں دنیا کے چوتھے پانچویں نمبر پر ہے لیکن دودھ عوام کی دسترس سے دور ہے نہ جانے وہ دودھ کہاں جا رہا ہے عوام کو لاکھوں ٹن کیمکلز ملا مشینی دودھ مل رہا ہے گندم کی پیداوار میں بھی ہمارا شمار ٹاپ ٹین ممالک میں ہوتا ہے لیکن آٹے کے حصول کے لیے عوام میلوں لمبی لائنوں میں کھڑے ہو کر جان کی بازی لگا کر آٹا حاصل کر رہے ہیں کجھور کی پیداوار میں بھی ہمارا شمار سرفہرست ممالک میں ہوتا ہے لیکن کجھور 500 روپے کلو سے کم پر میسر نہیں یہ ریاست دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کا اعزاز اپنے پاس رکھتی ہے لیکن ہر وقت اسے بقا کا خطرہ لاحق رہتا ہے دنیا کی عظیم فوج اس ریاست کے پاس ہے لیکن سیکورٹی سٹیٹ ہے دنیا کی قیمتی دھاتیں اس ریاست کے پاس ہیں لیکن انھیں استعمال نہیں کر پا رہے تمام سیاستدان محب وطن اور ملک کے خیر خواہ ہیں اور ملک کے لیے اپنی جانیں دینے کے لیے چوبیس گھنٹے تیار رہتے ہیں لیکن ملک کے عدم استحکام کا باعث بھی یہی لوگ ہیں ہر ایک نے اپنے دور حکومت میں ترقی کے چار چاند لگائے لیکن ملک کا چلنا دشوار ہو رہا ہے ہر ایک حکومت کی معاشی پالیسیاں زبردست رہی ہیں لیکن ملک ڈیفالٹ کر رہا ہے ملک کی بیوروکریسی عوام کی خدمت گزار ہے لیکن سرکاری اداروں نے عوام کا سانس بند کر رکھا ہے بہترین اساتذہ ہیں بہترین تعلیمی ادارے ہیں لیکن تعلیم ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ پا رہی ہم انسانیت کی معراج پر جانے کی بجائے جہالت کے گھپ اندھیروں کی طرف دوڑتے چلے جا رہے ہیں بہترین محنت کرنے والے مزدور کسان موجود ہیں لیکن نہ زراعت نظر آتی ہے نہ صنعت نظر آتی ہے ڈونیشن دینے والے ملکوں میں بھی ہم سرفہرست ہیں لیکن پھر بھی لوگ بھوکوں مر رہے ہیں ہم جیسا مظلوم بھی کوئی نہیں اور ہم جیسا ظالم بھی کوئی نہیں یہ تضادات کا حسین امتزاج صرف اس عجیب وغریب ریاست میں ہی پایا جاتا ہے جس کے مسیحا بوچڑ بھی ہیں اور مسیحائی کی اعلی معراج پر بھی پائے جاتے ہیں اس ملک کے مسائل کا موجب بننے والے ہی اس ملک کے نجات دہندہ بھی ہیں ایسے معاشرے کا مستقبل کیا ہو گا جہاں یا بے ایمانی ایں تیرا ہی آسرا والا ماحول ہو جہاں برائی کو برائی نہ سمجھا جا رہا ہو جہاں جھوٹ بولنے والے کو لیڈر کہا جاتا ہو جہاں فراڈیا معاشرے کا جینیس ہو وہاں بہتری کی توقع رکھنا ہجڑے کے گھر بچہ پیدا ہونے کی امید سے زیادہ اور کچھ نہیں اگر آپ بہتری چاہتے ہیں تو ایسی خرافات کے ساتھ بہتری نہیں آسکتی اس کے لیے اپنے آپ کو تبدیل کرنا پڑے گا خرابیوں کا سبب بننے والوں کا محاسبہ کرنا پڑے گا آپ کا مستقبل آپ کے اپنے ہاتھوں میں ہے اگر آپ نے خود کو تبدیل کر لیا تو معاشرے میں تبدیلی آنا شروع ہو جائے گی ورنہ ہمارا حال اس ترکھان جیسا ہے جو درخت کے ٹہن پر بیٹھ کر آری سے اس کو کاٹ رہا تھا اور ہر آنے جانے والے سے پوچھ رہا تھاکہ اس ٹہن کا کیا بنے گا
260