پاکستان صیح معنوں میں جادو نگری ہے کبھی تو دوتہائی اکثریت رکھنے والی حکومت بھی اتنی بے بس لاچار اور مجبور نظر آتی ہے کہ غائبی طاقتوں کے کھیل کو تسلیم کرنا پڑتا ہے اور کبھی دو ووٹوں کی معمولی اکثریت رکھنے والی پل صراط پر کھڑی حکومت وہ من مانیاں کرتی نظر آتی ہے کہ رہ رب دا ناں حکومت 13 جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل ہے اور وہ بھی ایسی ایسی جماعتیں جن کے نظریات بھی مختلف ہیں بلکہ کئی ایک کی تو آپس میں شدید سیاسی مخالفتیں بھی ہیں لیکن جادو کی لڑی میں پروی ہوئی ہیں ایسی حکومت جس کے پاس حکومت کرنے کا مینڈیٹ ہی نہیں تھا 2018 کے انتخابات میں قوم نے انھیں اپوزیشن کا کردار آلاٹ کیا تھا لیکن انھوں نے جگاڑ لگا کر عدم اعتماد کامیاب کروا لیا دنیا میں جہاں کہیں بھی جمہوری نظام ہے وہاں جمہوری روایات ہیں واہاں عدم اعتماد کے بعد سیاسی جماعتیں نئے مینڈیٹ کے لیے عوام کے پاس جاتی ہیں ہمارے یہاں اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد کہا جا رہا ہے کہ ہم نے الیکشن نہیں کروانے جاو جو کر سکتے ہو کر لو جس جمہوری نظام میں اپوزیشن قومی اسمبلی سے باہر ہو پارلیمنٹ ادھوری ہو ملک کی دو اہم اکائیاں عوامی نمائندگی سے محروم ہوں دو صوبوں کی اسمبلیاں ٹوٹ گئی ہوں اور فیڈریشن چاہ رہی ہو کہ وہاں بھی الیکشن نہ ہوں بلکہ نگرانوں سے کام چلایا جاتا رہے اس کو جمہوریت نہیں کچھ اور کہا جائے گا دو ووٹوں کی اکثریت سے قائم ڈانواں ڈول حکومت جسے عوام کی تائید بھی حاصل نہ ہو جو خوف کے مارے عوام میں جانے سے بھی گھبرا رہی ہو وہ اتنے بولڈ فیصلے نہیں کر سکتی جس کا وجود برقرار رکھنا بھی کسی جادو گری سے کم نہ ہو وہ عدالتوں پر بھی تنقید کر رہی ہو اداروں کو بھی اپنی مرضی ومنشا کے مطابق استعمال کر رہی ہو مخالفین کے بھی جیسے تیسے کڑاکے نکال رہی ہو تو اس کا مطلب ہے اسے کوئی طاقتور ملٹی وٹامنز کا انجکشن لگا ہوا ہے جس سے اس کے پاس اتنی طاقت آچکی ہے کہ اسے نہ آئین کی پروا ہے نہ قانون کی عملداری کا مسلئہ ہے نہ روایات کا پاس وہ بس ہاتھ پر سرسوں جمائے بیٹھی کرتب دکھا رہی ہے کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے ان کی ہر خواہش پوری ہو رہی ہے وہ جس کو چاہتے ہیں گرفتار کروالیتے ہیں جس کو چاہتے ہیں چھڑوا لیتے ہیں جس پر جو جی میں آئے مقدمہ درج کروا دیں صیح معنوں میں چمڑے کے سکے چلائے جا رہے ہیں اب ان میں اتنی ہمت آگئی ہے عدالتوں کو بھی اشارے کیے جا رہے ہیں کہ پاکستان میں وہ ہو گا جو ہم چاہتے ہیں دوسری جانب جس بندے کی پورے ملک میں پذیرائی ہے اس کی تمام سیاسی قانونی جدوجہد بےبس دکھائی دیتی ہے صاف نظر آرہا ہے کہ کہیں بڑی طاقتوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ پاکستان میں پاپولر لیڈر شپ قابل قبول نہیں کہیں فیصلہ ہو چکا کہ عمران خان کو کٹ ٹو سائز کرنا ہے اس کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کی کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے اور عمران خان کو فیلڈ سے آوٹ کرنے کے لیے سب جائز تصور کر لیا گیا ہے جب تک عمران خان کا جن قابو نہیں کر لیا جاتا اس وقت تک لوگ الیکشن کو بھول جائیں البتہ اب کی بار معاملہ تھوڑا مختلف ہے عوام کی وہ کلاس متحرک ہے جو شعور بھی رکھتی ہے اور آواز بھی بلند کرنا جانتی ہے عمران خان بھی تمام وارداتوں کا مقابلہ اسی عوامی ہتھیار سے کر رہا ہے اب فیصلہ کن مرحلہ شروع ہو چکا ہے اگر تو عوام ڈٹے رہے تو شاید منصوبہ ناکام ہو جائے ورنہ عمران کو قابو کرنے کے لیے مختلف جال بچھائے جا چکے ہیں درجنوں مقدمات قائم ہو چکے ہیں عمران خان کو مختلف حربوں کے ذریعے زمان پارک سے باہر نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے عمران خان کی گرفتاری بھی ہو سکتی اور اسے نااہل بھی کیا جاسکتا ہے ایسے میں عدلیہ پر سیاسی مقدمات کا شدید دباو بھی آچکا ہے تحریک انصاف کو اس وقت صرف اور صرف عوام اور عدلیہ کا سہارا ہے ورنہ زیادہ تر ادارے تو حکومت کی مرضی اور منشا کو فالو کر رہے ہیں لڑائی ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے حکومت نے اپنے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو صدر مملکت کے پاس بجھوایا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کا مطالبہ ماننے کے لیے منی بجٹ کے لیے صدارتی آرڈیننس جاری کر دیں لیکن صدر نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ بہتر ہے کہ اس پر ایوان سے رائے لی جائے جس پر باامر مجبوری حکومت کو ایوان میں جانا پڑا لیکن صدر کے پاس پاس ہونے والے بل کو 25 دن تک روکنے کا اختیار ہے صدر مملکت چاہتے ہیں کہ کسی طرح پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو جائے اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اب صدرمملکت بھی آخری حد تک جانے کے لیے تیار ہیں اور کئی معاملات پر آئینی ماہرین سے مشاورت کی جا رہی ہے اللہ ہم پر رحم کرے اور پاکستان کے فیصلہ کرنے والوں کو بہتر فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
220