196

منقسم نظام تعلیم اور بکھری قوم

پاکستان میں چار کاروبار عروج پر ہیں ان میں تعلیم کا کاروبار عروج پر ہے جتنا گڑھ ڈالو اتنا میٹھا ہو جائے گا آپ اپنی اولاد پر کتنی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں اسی درجہ کا آپ اسےشہری بنا سکتے ہیں دوسرا بڑا کاروبار ہیلتھ کا ہے آپ جس قدر پیسہ خرچ کر سکتے ہیں اسی طرح کے ماہر ڈاکٹر سے علاج کروا سکتے ہیں تیسرا بڑا کاروبار سیکورٹی کا عام آدمی عدم تحفظ کا شکار ہے جبکہ پیسے والے اپنے لیے سیکورٹی گارڈ اور گھر کو سکیور کر سکتے ہیں چوتھا بڑا کاروبار انصاف کا ہے پاکستان میں انصاف برائے فروخت ہے جتنا مہنگا وکیل کرسکتے ہیں اور جس قدر مینج کر سکتے ہیں اسی طرح کا انصاف آپ کو مل جائے گا ہم آج تک یکساں نصاب تعلیم نافذ نہیں کر سکے ہمارا نظام تعلیم کئی قسم اور درجوں کے شہری پیدا کر رہا ہے آئیں دیکھتے ہیں دنیا میں تعلیم کس طرح کی ہے تعلیمی درجہ بندی کے اعتبار سے فن لینڈ پہلے نمبر پر ہے ،جبکہ ” سپر پاور ” امریکا 20ویں نمبر پر ہے۔اس سال کے آخر تک فن لینڈ دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں مضمون ( سبجیکٹ ) نام کی کوئی چیز اسکولوں میں نہیں پائی جائے گی فن لینڈ کا کوئی بھی اسکول زیادہ سے زیادہ 195 بچوں پر مشتمل ہوتا ہے ، جبکہ 19 بچوں پر ایک ٹیچر ۔دنیا میں سب سے لمبی بریک بھی فن لینڈ میں ہی ہوتی ہے ، بچے اپنے اسکول ٹائم کا 75 منٹ بریک میں گزارتے ہیں، دوسرے نمبر پر 57 منٹ کی بریک نیو یارک کے اسکولوں میں ہوتی ہے جبکہ ہمارے یہاں اگر والدین کو پتہ چل جائے کہ کوئی اسکول بچوں کو ” پڑھانے” کے بجائے اتنی لمبی بریک دیتا ہے تو وہ اگلے دن ہی اپنے بچے اسکول سے نکلوالیں ۔دلچسپ بات ملاحظہ کریں ، کہ پورے ہفتے میں اسکولوں میں محض 20 گھنٹے ” پڑھائی ” ہوتی ہے، جبکہ اساتذہ کے 2 گھنٹے روز اپنی ” اسکلز ” بڑھانے پر صرف ہوتے ہیں سات سال سے چھوٹے بچوں کے لیے پورے ملک میں کوئی اسکول نہیں ہے، اور پندرہ سال سے پہلے کسی بھی قسم کا کوئی باقاعدہ امتحان بھی نہیں ہے۔

ریاضی کے ایک استاد سے پوچھا گیا کہ آپ بچوں کو کیا سکھاتے ہیں تو وہ مسکراتے ہوئے بولے ” میں بچوں کو خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا سکھاتا ہوں ،

کیونکہ اس طرح وہ زندگی کہ ہر سوال کو با آسانی حل کرسکتے ہیں“ آپ جاپان کی مثال لے لیں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ہی مضمون سکھایا جاتا ہے اور وہ ہے ” اخلاقیات ” اور ” آداب ” حضرت علیؓ نے فرمایا “جس میں ادب نہیں اس میں دین نہیں ایک استاد جاپان گئے اور ایئر پورٹ پر پہنچ کر انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور پھر ان کو لگا کہ شاید وہ جاپان کے وزیر اعظم ہیں اشفاق احمد مرحوم کو ایک دفعہ اٹلی میں عدالت جانا پڑا اور انہوں نے بھی اپنا تعارف کروایا کہ میں استاد ہوں وہ لکھتے ہیں کہ ، جج سمیت کورٹ میں موجود تمام لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے اس دن مجھے معلوم ہوا کہ قوموں کی عزت کا راز استادوں کی عزت میں ہے یہ ہے قوموں کی ترقی اور عروج و زوال کا راز جاپان میں معاشرتی علوم ” پڑھائی” نہیں جاتی ہے کیونکہ یہ سکھانے کی چیز ہے پڑھانے کی نہیں اور وہ اپنی نسلوں کو بہت خوبی کے ساتھ معاشرت سکھا رہے ہیں۔جاپان کے اسکولوں میں صفائی ستھرائی کے لیے بچے اور اساتذہ خود ہی اہتمام کرتے ہیں صبح آٹھ بجے اسکول آنے کے بعد سے 10 بجے تک پورا اسکول بچوں اور اساتذہ سمیت صفائی میں مشغول رہتا ہے ۔

دوسری طرف آپ ہمارا تعلیمی نظام ملاحظہ کریں جو صرف نقل اورچھپائی پر مشتمل ہے،ہمارے بچے ” پبلشرز ” بن چکے ہیں۔آپ تماشہ دیکھیں جو کتاب میں لکھا ہوتا ہے اساتذہ اسی کو بورڈ پر نقل کرتے ہیں بچے دوبارہ اسی کو کاپی پر چھاپ دیتے ہیں، اساتذہ اسی نقل شدہ اور چھپے ہوئے مواد کو امتحان میں دیتے ہیں ،خود ہی اہم سوالوں پر نشانات لگواتے ہیں اور خود ہی پیپر بناتے ہیں، اور خود ہی اس کو چیک کر کے خود ہی نمبر بھی دے دیتے ہیں بچے کے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ بھی خود ہی صادر کردیتے ہیں اور ماں باپ اس نتیجے پر تالیاں بجا بجا کر بچوں کے ذہین اور قابل ہونے کے گن گاتے رہتے ہیں اور جن کے بچے فیل ہوجاتے ہیں، وہ اس نتیجے پر افسوس کرتے رہتے ہیں اور اپنے بچے کو ” کوڑھ مغز ” اور ” کند ذہن ” کا طعنہ دیتے رہتے ہیں ہم 13، 14 سال تک بچوں کو قطار میں کھڑا کر کر کے اسمبلی کرواتے ہیں اور وہ اسکول سے فارغ ہوتے ہی قطار کو توڑ کر اپنا کام کرواتے ہیں جو جتنے بڑے اسکول سے پڑھا ہوتا ہے ،قطار کو روندتے ہوئے سب سے پہلے اپنا کام کروانے کا ہنر جانتا ہے طالبعلموں کا اسکول میں سارا وقت سائنس ” رٹتے ” گزرتا ہے اور آپ کو پورے ملک میں کوئی ” سائنس دان ” نامی چیز نظر نہیں آئے گی کیونکہ بدقسمتی سے سائنس ” سیکھنے ” کی اور خود تجربہ کرنے کی چیز ہے، اور ہم اسے بھی ” رٹّا ” لگواتے ہیں ۔میٹرک کلاس کا پہلا امتحان 1858ء میں ہوا، اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ بر صغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اس لیے چونکہ ہمارے پاسنگ مارکس 65 ہیں تو بر صغیر والوں کے لیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں دو سال بعد 1860ء میں اساتذہ کی آسانی کے لیے پاسنگ مارکس 33 کردیے گئے اور ہم بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں ۔