Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
280

پورے اسکول کی بدنامی۔

میرے ایک دوست نجی اسکول کے مالک و پرنسپل ہیں۔ کبھی کبھار ان سے گپ شپ کو دل چاہے تو انکے اسکول چلا جاتا ہوں۔ ایک ایسے ہی دن میں انکے آفس پہنچا تو ایک میاں بیوی ان کے دفتر میں پہلے سے موجود تھے اور کوئی دھواں دھار معاملے پر بحث چل رہی تھی۔

معاملہ کچھ یوں تھا کہ وہ عورت میرے ان دوست کی سفارش پر کسی اور اسکول میں آیا اور صفائی ستھرائی کا کام کرتی تھی۔ مگر ان اسکول والوں نے اسکو نکال دیا اور اب وہ اپنی فریاد میرے دوست کے پاس لیکر آئی تھی۔ اور بتا رہی تھی کہ ایسا گندہ ماحول اس نے زندگی بھر نہیں دیکھا مگر پھر بھی آپ کے کہنے پر میں وہاں کام کرتی رہی، مگر اب انہوں نے مجھے ہی نکال باہر کیا ہے، آپ ہی بتائیے میرا قصور کیا ہے۔

میرے دوست معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ آپ نے کہا کہ وہاں گندہ ماحول تھا اور ایک لڑکے اور لڑکی کو آپ نے خود پکڑا؟ یہی کہا نا آپ نے، پکڑا ؟ میرا دوست اپنے مخصوص انداز میں بات کو دہراتے ہوئے اس سے پوچھ رہا تھا۔

جی جی بالکل، میں نے ان دونوں کو پکڑا۔ پھر میں نے ساری بات پرنسپل صاحبہ کو بتائی، اور اب انہوں نے مجھے ہی نکال دیا ہے۔ شرافت کا تو کوئی زمانہ ہی نہیں رہا۔ لڑکے لڑکیاں سرعام ایسی حرکات کر رہے ہیں، اور ہمیں ، بتانے والوں کو نوکری سے نکال دیا جاتا ہے۔

میری دلچسپی بھی بڑھ گئی اور میں افسوس بھی کرنے لگا کہ بعض اسکولوں میں معاملات اتنے گر گئے ہیں کہ اخلاقی طور پر ایسے گندے کام اس عمر کے بچوں میں بھی پھیل گئے ہیں۔

اچھا، چلیں آپ مجھے زرا تفصیل سے بتائیں، تاکہ میں ان سے بات کر سکوں، میرے دوست، جنکا نام بشیر سمجھ لیںِ کہنے لگے۔

جی، میں چھٹی کے بعد صفائی کر رہی تھی، نیچے کے کمروں کی صفائی کے بعد میں اوپر جانے لگی تو مجھے اوپر کی منزل میں کچھ آواز آئی۔ میں ہو شیار ہو گئی، آپ ہی نے تو کہا تھا کہ ایسے معاملات پر نظر رکھا کروں۔ تو جی میں دبے پاؤں اوپر گئی تو آوازیں آخری کمرے سے آرہی تھیں۔ بس جی وہیں جا کر میں نے ان دونوں کو دیکھا، اور پرنسپل صاحبہ کو شکائت کر دی۔

کمرے میں ہم تین مرد تھے، ایک میں ، ایک وہ میرا دوست اور تیسرا اس عورت کا میاں جو ساتھ آیا تھا، اور وہ عورت تھی۔ ماحول تھوڑا عجیب ہو چلا تھا۔ بشیر صاحب تھوڑی دیر سر جھکائے سوچتے رہے، پھر سر اٹھایا اور اسکے خاوند کی طرف دیکھتے ہوئے عورت سے مخاطب ہوئے، دیکھو بی بی ، ایسے معاملات بہت حساس ہوتے ہیں۔ میرا دل تو نہیں چاہتا کہ میں مزید تفصیل میں جاؤں، مگر اب تمہاری نوکری کا معاملہ ہے، اور میری بھی عزت کا معاملہ ہے کہ میں نے تمہیں اس اسکول میں لگوایا تھا۔ اس لیے تم زرا تفصیل سے بتا دو کہ تم نے کیا دیکھا۔

جی میں بتا تو رہی ہوں، وہی گند، جو ہر جگہ ہوتا ہے، لڑکے اور لڑکی میں۔ وہی سب کچھ۔ اب جی کیا بتاؤں، وہ اپنے خاوند کی طرف دیکھ کر چپ ہو گئی۔ میں بظاہر اپنے موبائل پر میسیجز سے کھیل رہا تھا۔ بشیر صاحب اب بولے تو انکے لہجے کی جھلاہٹ نمایاں تھی، اچھا ایسا کریں، آپ صرف یہ بتا دیں کہ اس کمرے میں آپ نے کیا دیکھا، وہ لڑکا اور لڑکی کیا کر رہے تھے؟

جی جی، میں آپ کو بتا تو رہی ہوں۔ میں جب دبے پاؤں آگے بڑھی تو وہ رک گئے تھے، مگر میں نے انکو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ بس ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

میں بشیر صاحب کے چہرے کو کنکھیوں سے دیکھ رہا تھا، انکی حالت دیدنی تھی۔ خیر اس صابر بندے نے پھر سے اپنا لہجا دھیما کیا، اور بولا، اچھا جب تم سیڑھیوں سے اوپر گئیں اور کمرے کی طرف بڑھیں، اس سے آگے پھر بتاؤ۔

جی میں سیڑھیوں سے اوپر گئی، انکی آوازیں آرہی تھیں ، ہلکی ہلکی، میں پولے پیروں چلتی دروازے تک پہنچی اور دروازہ کھول دیا۔

اچھا، پھر کیا دیکھا، لڑکا کدھر تھا اور لڑکی ؟ بشیر صاحب مجھے عدالتی وکیل لگے۔

جی، مجھے دیکھ کر تینوں حیران رہ گئے۔

تینوں ؟ بشیر صاحب چونکے، میں نے بھی سر اٹھا کر اس عورت کی طرف دیکھا، بات ہی ایسی تھی۔

جی اس لڑکی کی سہیلی بھی تھی کمرے میں۔

بشیر صاحب کا منہ دیکھنے والا تھا، روزانہ دسیوں لوگوں سے نمٹنے والے، حیرانی و بے بسی سے اس عورت کا منہ دیکھ رہے تھے۔

اچھا وہ لڑکا اور لڑکی کہاں تھے؟ لڑکی کیا کر رہی تھی جب تم نے ان دونوں کو رنگے ہاتھوں پکڑا تو۔

جی جی وہی بتا رہی ہوں، جیسے ہی میں نے دروازہ کھولا میں نے دیکھا یہ لڑکی کرسی پر بیٹھی ہے، اور لڑکا اس لڑکی کے سامنے کھڑا ہے اور اس لڑکی کو ایک کاغذ دے رہا ہے۔ جو اس لڑکی نے پکڑ لیا تھا۔ اس کی سہیلی پچھلی کرسی پر بیٹھی تھی۔

بشیر صاحب نے میری طرف دیکھا، ہم دونوں بچپن کے دوست ہیں، تیس سال کی دوستی میں ایک دوسرے کی بات اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ بشیر صاحب نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اس عورت کو ہزاروں صلواتیں سنادیں۔ میں زیر لب مسکرا رہا تھا، سیچوئیشن کی مضحکہ خیزی پر۔

بی بی! بالاخر بشیر صاحب نے اپنی آواز زرا اونچی کی، تم نے کہا کہ وہ اسکول کا سارا ماحول گندہ ہے اور پتہ لڑکے اور لڑکیوں میں گندی حرکتیں چل رہی ہیں۔ یہ بات تم نے صرف مجھے نہیں ارد گرد کئی لوگوں سے کی ہیں۔ جہاں تک مجھے پتہ چلا ہے کہ اس وجہ سے کئی لوگ اپنے بچے اس اسکول سے نکلوا رہے ہیں۔ اب تم مجھے بتا رہی ہو کہ جس گندی حرکت کی وجہ سے تم اتنے دن سے اس اسکول کو بدنام کروا رہی ہو، وہ ایک لڑکے کی لڑکی کو ایک پرچی دینا تھا؟

ہاں جی، اس پرچی پر اس لڑکے نے اپنا نمبر لکھا ہوا تھا، وہ عورت بتا رہی تھی، اور بشیر صاحب کا منہ سرخ ہو رہا تھا۔

بی بی شکر کرو انہوں نے صرف نکالا ہے، میں ہوتا تو اپنے اسکول کو بدنام کرنے کے لیے تمہیں کچھ اور بھی سزا دلواتا۔ تمہاری بے وقوفی نے کتنی بڑی غلط فہمی پیدا کردی ہے۔ بے وقوف عورت تمہارے الفاظ کے مناسب استعمال کے نہ جاننے کی وجہ سے ایک اسکول پر ہمیشہ کے لیے بدنامی کا داغ لگ چکا ہے۔

دوستو ! میں نے جب یہ واقعہ دیکھا تھا تو سوچا تھا آپ سے ایک دن شئیر ضرور کرونگا۔

مگر گلالئیؔ نے اس واقعے کو اتنا دلچسپ نہیں رہنے دیا۔ اسکے بے ہودہ اور گندے میسجز کا خلاصہ جب آپ کے سامنے آئے گا تو شائد آپ کا منہ بشیر کے منہ سے بھی زیادہ سرخ ہو جائے۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں