تاریخ گواہ ہے کہ شریف فیملی کی سیاست کو بھٹو مخالفت نے دوام بخشا جنرل ضیاالحق کے مارشل لاء کے بعد میاں شریف اس وجہ سے جرنیلوں کے قریب ہوئے کہ وہ بھٹو کے خلاف تھے اور ہر جگہ اپنا کیس پیش کرتے تھے کہ بھٹو کی قومیانے کی پالیسی نے ہماری ملیں قبضے میں لے لیں ہمیں ٹکے ٹوکری کر دیا ان دنوں جنرل ضیاالحق کی سوچ تھی کہ جاگیر داروں اور زمینداروں کا سیاست پر قبضہ ہے کسی طرح ان کا زور توڑا جائے اس کے لیے اس زمانے میں جاگیر داروں اور زمینداروں کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کی گئی پی ٹی وی پر تسلسل کے ساتھ ڈرامے دکھائے گئے جن میں ان سیاستدانوں کو ظالم دکھایا گیا جنرل ضیاالحق اس طبقہ کے خلاف کوئی اپنا کھلاڑی متعارف کروانا چاہ رہے تھے جنرل جیلانی نہ میاں نواز شریف کو متعارف کروایا تو میاں نواز شریف ان کو بھا گئے انھوں نے پہلے انھیں پنجاب کا وزیر خزانہ بنایا پھر 1985 کے غیر جماعتی الیکشن میں انھیں وزیر اعلی پنجاب بنوایا اور آوٹ آف دی وے میاں نواز شریف کی پروموشن کی گئی وہ ضیاالحق کے اتنے قریب ہو گئے کہ پاکستان کی تاریخ میں ان جیسے اختیارات شاید ہی کسی حکمران کے پاس رہے ہوں اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب 1988 میں جنرل ضیاالحق نے اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن کا اعلان کیا تو تمام صوبوں اور وفاق میں نگران مقرر کیے گئے لیکن پنجاب میں میاں نواز شریف کی حکومت ختم کر کے انھیں ہی نگران وزیر اعلی مقرر کر دیا گیا اس وقت قومی اسمبلی کے انتخابات پہلے ہوتے تھے اور اس کے تین دن بعد صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ہوتے تھے قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی واضح اکثریت سے پتہ چل گیا کہ صوبوں میں بھی پیپلزپارٹی کامیاب ہو جائے گی لیکن میاں نواز شریف کو دوبارہ وزیر اعلی پنجاب بنوانا مقصود تھا اس لیے راتوں رات نعرہ ایجاد کیا گیا جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ پنجاب میں میاں نواز شریف کو معمولی برتری سے اقتدار دلوا دیا گیا اور اس کا ایک ہی مقصد تھا کہ پیپلزپارٹی کے پاوں نہیں لگنے دینے میاں نواز شریف نے پہلے دن سے ہی پیپلزپارٹی کی مرکزی حکومت کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دی بے نظیر کو سیکورٹی رسک ،ملک توڑنے والی جماعت، غدار اور نہ جانے کیا کیا الزامات سے نوازا گیا پنجاب کا اپنا بینک اپنا ٹی وی بنانے کا اعلان کیا گیا اور بے نظیر بھٹو کے جہاز کو لاہور میں لینڈ نہ کرنے کی دھمکی دی گئی وزیر اعلی نے پنجاب میں وزیر اعظم کے آنے پر ان کے استقبال سے انکار کر دیا ہم نے بھی ان ہی دنوں 1988 کے انتخابات میں اپنی صحافت کا آغاز کیا تھا ان دنوں ضیا شاہد صاحب جنگ اخبار کے روح رواں تھے میرا ان سے قریبی تعلق تھا میں جانتا ہوں کہ ان دنوں میاں نواز شریف کی خصوصی پوز والی تصویروں کی باقاعدہ ماڈلنگ کروائی گئی اور سٹاف کو خصوصی ہدایت تھی کہ بے نظیر کی تصویر کے ساتھ نواز شریف کی تصویر آنی چاہیے پیپلزپارٹی کے ساتھ محاذ آرائی نے میاں نواز شریف کو لیڈر بنا دیا میاں شہباز شریف کی مشھور زمانہ تقریر جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ہم زرداری کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت ریکور کریں گے اور انھیں لاڑکانہ اور لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹیں گے زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب بھی دیا گیا آج جب زمانہ بدلہ ہے تو میاں صاحبان نے آصف علی زرداری کو اپنا استاد مان لیا ہے آج کل ان کے مشوروں کے بغیر پتہ نہیں ہلتا لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کی تین بار حکومت رہی وہ بھٹو کو انصاف نہ دلا سکے بےنظیر بھٹو کا قتل ہوا مرتضی بھٹو کو سر عام ماردیا گیا ان کو بھی انصاف نہ مل سکا اب بھٹو کو انصاف دلانے کا بیڑا میاں شہباز شریف نے اٹھایا ہے وہ بھٹو کے وکیل بن کر سامنے آئے ہیں انھوں نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ بھٹو شہید کے عدالتی قتل کے 12 سال سے زیر التواء ریفرنس پر عمل ہونا چاہیے اور اس پر فل کورٹ فیصلہ کرے اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلزپارٹی تو آج تک بھٹو کو انصاف نہ دلا سکی یا دلانہ ہی نہیں چاہتی تھی لیکن میاں شہباز شریف انھیں ضرور انصاف دلائیں گے یہ اچانک میاں شہباز شریف کو ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا خیال کیوں آیا 4اپریل کو سپریم کورٹ نے پنجاب میں انتخابات کروانے کا فیصلہ جو دے دیا ہے حکومت کسی صورت انتخابات میں نہیں جانا چاہتی اس لیے سپریم کورٹ کے فیصلے کو 4اپریل کےبھٹو کی پھانسی کے فیصلے سے جوڑنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے
224