آج جب یونیورسٹی سے چھٹی ہوئی تو اطلاع ملی کہ پاس والی کچی بستی جانا ہے وہاں سے یہ معلوم کیا جاسکے کہ انکے کتنے بچے سکول نہیں جا رہے ہماری ٹیم جب وہاں پہنچی تو ہم نے جو دیکھا میں اسکا آنکھوں دیکھا حال یہاں بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔
قلم موومنٹ کے نام سے ہم پہلے ہی کچی آبادی والے بچوں کو اسی آبادی میں سکول قائم کرکے وہاں پڑھانا شروع کر دیتے ہیں جیسے انکا لیول سکول جانے کا ہوتا ہے تو قریب کسی سرکاری سکول یا پرائیویٹ سکول میں داخل کراتے ہیں۔
یہاں تقریبا 20 سے زیادہ کچی جونپڑیاں تھیں، جس میں کسی کی چھت نہیں تو کسی کا دروازہ نہیں اور کسی کی کھڑکی نہیں تھی کسی بھی قسم کی بنیادی انسانی ضروریات زندگی میسر نہیں تھیں ۔
آج ہی کلاس میں ایجوکیشن اینڈ فنانس کی میڈم ڈاکٹر فرخندہ تبسم صاحبہ دوران لیکچر بتارہی تھی کہ پاکستان کا کل آبادی کے 5 کڑور لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اور حالیہ 5 مہینوں میں 41 لاکھ کا مزید اضافہ ہوا ہیں۔
اور آج پہلی بار مجھے وہاں کچی آبادی کے دورے سے پتہ چلا کہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی کیسے بسر ہوتی ہے .
وہاں موجود بزرگ خواتین اور مرد سے میں نے انکی کچی آبادی میں قیام کا پوچھا تو ایک بزرگ خاتون جس کی عمر 80 سال سے زیادہ لگ رہی تھی بولی کہ بیٹا ہم بھٹو کے وقت سے یہاں پڑے ہوئے ہیں مجھے فورا بھٹو کی روٹی کپڑا مکان والا نعرہ یاد آیا لیکن ساتھ ہی آج کے اسی فنانس کے لیکچر میں میڈم نے 2005 کے زلزلے کے حوالے ایک ڈاکومنٹری کا حوالہ دیکر بتائ کہ زلزلہ متاثرین کو بیرون ملک سے جو امداد ملی تھی وہ متاثرین کو نہیں ملی اور جو سامان ملا تھا وہ بازاروں میں بک گیا.
اور جو قیمتی کمبل وغیرہ تھے وہ بھی امیروں کے گھر پہنچ گئے حالانکہ ان اشیا کے ساتھ متاثرین کا ٹیگ بھی لگا ہوا ہے پھر ہضم کر گئے۔
اچانک مجھے عمران خان کی مدینہ والی ریاست ، 50 لاکھ گھر اور حالیہ شروع ہونے والا “احساس” پروگرام کا خیال آیا تو ایک امید بھر آئ کہ کسی نہ دن ان لوگوں کے لیے بھی گھر ملے گا
”احساس“ پروگرام سے انکے بچے بھی خود سکول جائینگے یہ سوچ ہی رہا تھا کہ دوسری طرف پاس بیٹھی بزرگ خاتون بولی بیٹا روز سی ڈی اے والی آتے ہے اور جگہ خالی کرنے کو کہتے ہیں.
عمران خان نے بھی سی ڈے اے کو جگہ خالی کرانے کا حکم دیا ہے وہ بیس لاکھ کا مکان بنا کے دے ہے کہ ہمارے پاس تو ایک وقت کی روٹی کے للیے پیسے نہیں بیس لاکھ کہاں سے لائینگے۔
یہ سنتے ہی میرے 50 لاکھ گھر اور احساس پروگرام کے حوالے سے امید خام خیال بن گئی گھر تو 20 لاکھ میں دینگے اور انکے پاس تو ایک وقت کی روٹی کھانے کو پیسے نہیں 20 لاکھ کہاں سے لائینگے۔
اور احساس پروگرام بھی زلزلہ متاثرین کہ طرح کسی بیوروکریٹ اور سیاست کے جیب میں جائیگا مستحقین کو کچھ نہیں ملے گا۔
مجھے سب سے زیادہ حیرت اس وقت ہوئ جب سامنے والی جونپڑی پے نظر پڑی تو وہاں اسی حلقے سے سابق ایم این نے انجم عقیل کا پوسٹر اور اوپر پاکستان کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔
جھنڈے کو یوں بلند دیکھ کر حب الوطنی بھی جاگ گئی اور فخر محسوس ہوا لیکن وہاں لوگوں کی وہ حالات دیکھ کر مایوسی بھی ہوئ جس جھنڈے تلے سب نے ملکر اسلام کے نام بھی جو ملک بنائی تھی اسی میں آج دو طبقے بن گئے ہیں۔
ایک وہ طبقہ ہے جن کے کتوں اور گھوڑوں کا روزانہ لاکھوں ہزاروں میں خرچہ ہے
جبکہ دوسرا وہ طبقہ ہے جنکے بچے بھوکے سوتے ہے۔
ایک وہ طبقہ ہے جنکے بچے اندرون بیرون ملک مہنگی سکولوں میں پڑھتے ہے
جبکہ دوسرا طبقہ کے بچے سرکاری سکول بھی نہیں جاسکتے ہیں کیا اسی دن کے لیے اسلام کے نام پے پاکستان بنایا تھا؟
اسلام میں حکمران تو ایسے تھے جو کہتے تھے
“اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو کل قیامت کے دن عمر (رضی اللہ عنہ )سے اس بارے میں پوچھ ہو گی”.
آج کتنے انسان بھوکے سوتے ہے اور کتنے بچے بھوک سے مرتے ہے ہم سب کو بخوبی علم ہیں۔
جب میں نے انجم عقیل کے بارے میں پوچھا تو وہ بزرگ خاتون نے بتائی کہ یہ صاحب کے بندے الیکشن کے وقت یہاں آتے ہیں یہ تصاویر دیکھا کر کہتے ہے کہ صاحب کو ووٹ دینا ہے۔
انجم عقیل کے بارے میں کون نہیں جانتا ہے کہ اسلام آباد میں انہوں نے اسلام آباد کے کتنے زمینوں پے قبضے کئے ہوئے ہیں لیکن وہی اپنے حلقے کے کچی آبادی والوں سے کبھی حال احوال نہیں پوچھا۔
جب ایم این اے تھا تو بھی پانی کا ایک سکیم بھی کسی کچے بستی کو نہیں دے سکا اب اسی حلقے سے اسد عمر جیتے ہے ان سے اپیل ہیں کہ ایسے لوگوں کی فلاں کے کچھ عملی اقدامات کرائیں اور انکے حوالے مستقبل پالیسی بنائی جائے تاکے وہ سکون سے اپنی زندگی بسر کرسکے۔
جیسے ہی کچی آبادی کے بچے جمع ہوگئے تو ان سے ہم نے پوچھنا شروع کیا۔
آپ سکول جاؤ گے؟
تو سارے یک دم خاموش ہوگئے پھر ہم نے کہا مفت کتابی بھی دینگے وردی بھی دینگے اور بستے بھی مگر بچوں کی طرف ہاں یا ناں میں جواب نہیں آیا البتہ انہوں نے سوال کیا
کیا آپ لوگ ہمیں کھانا بھی دینگے؟
اسکا جواب ہم نے بغیر کسی وقفے کے سب نے ہاں میں دیا تب سارے بچے ہمارے ساتھ گھل مل گئے اور سب نے پڑھنے اور سکول جانے کے لیے رضامندی ظاہر کی انکے چہرے پے خوشیوں کے تاثرات دیکھنے والے تھے بچیاں عید کے کپڑوں کا بھی کا پوچھ رہی تھی۔
ہمارے حکمران روز سو وعدے اور دعوے کرتے ہے مگر عملی طور پے عام عوام کے لیے کچھ نہیں کرتے ہے اگر کچھ کرتے تو آج یہی بچے کتابیں اور سکول یونیفارم کے جگہ کھانا نہیں مانگتے۔
جب بھی ملکی معاشصورتحال خراہوتی ہے تو اثر عام عوام پے پڑتا ہے عوام مہنگائی کا شکار ہوتے ہیں جبکہ اسی خراب معیشت کے دوران حکمرانوں کے ساتھ انکے بچوں کی آمدنی بھی لاکھوں گنا بڑھ جاتی ہے اندرون بیرون ملک جائیدادیبن جاتی ہے اور دولت کا زخیرہ ہوتا ہے.
جبکہ عام کے پاس جو کچھ ہے وہ بھی بیچنے کا تیار ہوتے ہیں۔
جب تک ہمارے حکمران سب کو برابر انسان نہیں سمجھتے تب تک اسلام کے نام پے حاصل کی جانے والی مملکت میں روز ناانصافی اور یہ ظلم جاری رہے گا اور اس ناانصافی اور ظلم کیخلاف خاموش رہ کر حکمرانوں کے آلہ کار بن کے انکے دفاع کرنے والے قیامت کے دن اللہ کے سامنے کس منہ سے جائینگے۔