280

سڑکوں پر نون لیگ کے لیے کچھ نہیں ہے۔

نواز شریف جی ٹی روڈ پر جو تلاش کر رہے ہیں وہ وہاں پر ہے ہی نہیں۔ اس وقت جو صورتحال ہے، اس میں نواز شریف کے لیے جائے اماں کی دو ہی صورتیں ہیں، اول یہ کہ فوج کوئی ایسا قدم اٹھائے کہ نواز شریف سیاسی شہید قرار دیے جا سکیں، اور عوامی حمائت کو آواز دینے لائق ہو سکیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی، بلکہ این آر او فیلو، آصف زرداری مدد کو آئیں اور عدالت کو پریشر میں لا کر، اور کنفیوژن کے گردوغبار کو لفافہ میڈیا کے زریعے اور بڑھا کر، اس سارے پراسیس کو میلائن کیا جاسکے اور پھر پارلیمان کی بالادستی کے نام پر دو تہائی اکثریت سے ایسے آرڈیننس پاس کیے جا سکیں جو سارے پرانے داغ سرف ایکسل کی طرح دھو سکے، تاکہ نواز شریف ایک بار پھر عوام کو بتا سکے کہ “داغ تو اچھے ہوتے ہیں” ، یعنی وہ داغ کرپشن کے نہیں تھے، بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی سازش تھے، کیونکہ میں تو عوام کی خاطر دن رات ایک کیے ہوئے تھا، اس وجہ سے مجھ پر کرپشن کے سارے الزامات لگائے گئے۔

مگر نواز شریف کے لیے افسوس کی خبر یہ ہے کہ ایسا کچھ ہونے نہیں جا رہا۔ کیونکہ ایک تو محاورے کے مطابق کاٹھ کی ہنڈیا روز روز نہیں چڑھتی، اور سارے لوگوں کو سارے وقت کے لیے بیوقوف بنانا بھی مشکل امر ہے۔ اور دوسرا یہ کہ کچھ زمینی حقائق بھی ان کے حق میں زیادہ نہیں ہیں۔ آئیے تھوڑا جان لیتے ہیں کہ وہ کونسے حقائق ہیں جو نواز شریف کے حق میں نہیں ہیں۔

نواز شریف کا سب سے بڑا دشمن اسکی اپنی کابینہ ہے۔ کہتے ہیں کسی احمق سے بدلہ لینا ہو تو بس اس کو نصیحت کرنا چھوڑ دو، وہ خود بخود اپنی ہی غلطیوں سے خود کو تباہ کر لے گا۔ نواز شریف کابینہ ایسے احمقوں سے بھری ہوئی ہے جو نواز شریف کو ہر بہتر آپشن سے بچا کر پھنسانے میں مہارت رکھتی ہے۔ اسی وجہ سے جب سے پانامہ کا معاملہ شروع ہوا تو نواز شریف کے پاس بہت سے مواقع تھے کہ وہ کسی بھی طرح اس معاملے کو بڑھنے سے پہلے پہلے کم نقصان کے ساتھ ہینڈل کر سکتے۔ مگر ان کے مشیران جو سمجھتے ہیں کہ مخالفین کو گالی گلوچ ہی ہر مسئلے کا حل ہے، اور بھنگڑا ڈالنے سے لوگ آپ کو حق پر سمجھنے لگ جاتے ہیں، انہوں نے نواز شریف کو ہر ایسے قدم سے منع کر دیا جس سے خلاصی ممکن تھی۔ نواز شریف کا خود کو اقتدار سے الگ کر لینا اور پارٹی معاملات تک محدود کرنا ایک ایسا ہی راستہ تھا، جو وہ اپنے مخالفین کے ساتھ ڈیل میں حاصل کر سکتے تھے۔ میرا خیال ہے تب تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کسی مفاہمت پر آسکتے تھے، اور جماعت اسلامی بھی اس کے حق میں ہوتی۔ مگر برا ہو انکے مشیران کا جنہوں نے انکو مشورہ دیا کہ دھونس دھمکی کا استعمال کیا جائے اور کرپشن کے اس معاملے میں پورے ملکی اداروں کی آنکھ میں دھول جھونک کر فتح حاصل کی جائے۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر گزرتے دن میاں صاحب اس مقدمے کی دلدل میں پھنستے چلے گئے۔ اور انکے وہ معاملات بھی طشت از بام آتے گئے جو پانامہ کیس میں شامل نہیں تھے۔

دوسری حقیقت جس سے نواز شریف ٹیم ناواقف نظر آتی ہے، یا جان بوجھ کر نظریں چرا رہی ہے، وہ عدلیہ کو ملی ہوئی آزادی ہے۔ عدلیہ بحالی تحریک کے نتیجے میں عدلیہ کو حاصل ہونے والی خود مختاری نے معزز جج صاحبان پر سے سیاسی دباؤ کافی حد تک کم کر دیا ہے اور انکی محکمانہ ترقیوں میں بھی اب کوئی سیاسی شخصیت یا وابستگی حائل نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک ایسا ریلیف ہے، جو اگر پاکستان کے باقی اداروں کو بھی حاصل ہو جائے تو اس میں بیٹھے ہوئے محب وطن افراد ہفتوں میں اپنی کاکردگی بہتر کر سکتے ہیں۔ اسی آزادی کا نتیجہ ہے کہ اب سپریم کورٹ کے انداز و اطوار، فیصلوں اور انداز تفتیش میں یک گونہ تسلسل نظر آ رہا ہے اور عوام کو محسوس ہو رہا ہے کہ کسی بھی قسم کے دباؤ کے بغیر فیصلے ہو رہے ہیں۔ پانامہ کیس فیصلہ بھی انہی میں سے ایک ہے، جس میں تعینات ججز اور تفتیشی افراد نے سیاسی دباؤ، اور ہر طرح کے لالچ کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ ایسی آزاد عدلیہ آنے والے دنوں میں بھی کرپٹ سیاسی جماعتوں کے لیے درد سر بنے رہیں گے۔ اگر نواز شریف اپنی سایسی مقبولیت اور عوام کے پریشر کو کسی طور عدلیہ کے فیصلے کے خلاف لے بھی آتے ہیں تو آزاد عدلیہ ہی اس فیصلے پر نظر ثانی کرے گی، اور ظاہر ہے اگلا فیصلہ بھی دباؤ سے آزاد ہوگا۔

تیسری حقیقت جو نواز شریف کے مشیران و کابینہ بار بار نظر انداز کر جاتے ہیں، خصوصاً جب وہ “دلوں کا وزیر اعظم”، عوام کا فیصلہ، اور ووٹ کی طاقت اور مینڈیٹ جیسی باتیں کرتے ہیں۔ اور انکے ساتھ پی ٹی وی کی ملازمت پر “قانع” ایک دانشور جو نواز شریف کی سیاسی عصبیت کا تمغہ لگائے رہتا ہے۔ یہ سب حضرات اس بات کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ اگر نواز شریف کے ساتھ عوامی طاقت ہے اور وہ اسکو اپنے کرپشن کے حق کو فائق کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں، تو انکے مخالفین کے پاس بھی تقریبا نواز شریف کے برابر یا اس سے بھی کہیں زیادہ سیاسی عصبیت موجود ہے۔ کا عمران خان لاکھوں دلوں کا وزیر اعظم نہیں کہلاتا؟ جس “عہدے” پر اب نواز شریف خود کو فائز کرنا چاہتے ہیں، اس پر تو عمران خان کافی سالوں سے براجمان ہے۔ کیا جماعت اسلامی کو سیاسی عصبیت حاصل نہیں ہے؟ کیا آصف زرداری سندھ کے دو لاکھ ہاری اپنی زمینوں سے اکٹھے نہیں کر سکتا؟ تو اگر اس سب کو اکٹھا کیا جائے تو نواز شریف کے مخالفین کے پاس بھی سڑک پر اس سے زیادہ طاقت موجود ہے۔

نواز شریف کے احمق مشیران نے پیپلز پارٹی کے مخالفت میں بھی نواز شریف کو تنہا کر دیا ہے۔ اب پیپلز پارٹی بھی اپنی حمائت کی وہ قیمت مانگ رہی ہے جو شائد نواز شریف دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ اگرچہ خواجہ سعد رفیق اشارے دے رہے ہیں کہ اگلا وزیر اعظم جو بھی آیا اسکو مدت پوری کروائیں گے، ظاہر ہے اس سے خواجہ سعد رفیق کا مقصد تحریک انصاف کا وزیر اعظم تو ہو نے سے رہا۔ مگر میرا نہیں خیال کہ آصف زرداری اب نواز شریف کی ویسی حمائت کریں گے، اور اسکی دیگر وجوہات کے علاوہ نواز شریف کا کام نکل جانے پر آنکھیں پھیر لینا بھی شامل ہے۔

آخری بات جو بحرحال نواز شریف کے نااہل مشیران بھی سمجھ ہی رہے ہیں اور خود نواز شریف صاحب اسکا بخوبی ادراک کر چکے ہیں کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد جو مقدمے ان پر بننے جارہے ہیں وہ انکی سیاسی قبر ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر ان مقدموں پر تفتیش شروع ہو گئی تو چاہے کوئی کتنا بھی نون لیگ کا حامی افسر ان اداروں میں شامل ہو، وہ موجود دستاویزات اور ثبوتوں کے سامنے اپنی کوئی جانبداری چلا نہیں سکے گا اور یہ مقدمے اپنے منطقی انجام پر پہنچتے ہوئے نواز فیملی کی گردن کا پھندا بن سکتے ہیں۔

آخری حقیقت جو نواز شریف کو زہن میں رکھنا ہوگی کہ وہ جے آئی ٹی کے والیم دس کی موجودگی میں عدلیہ پر بہت دیر تک اور بہت دور تک پریشر ڈالنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ جلد یا بدیر عوام ہی عدلیہ کو والیم دس کے معاملات کھولنے یا ان پر ایکشن لینے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ اگر والیم دس میں موجود معلومات ملکی سلامتی یا نواز شریف کے بھارتی افراد سے تعلقات کے بارے میں ہے، جیسا کہ نعیم بخاری نے اشارہ دیا ہے، تو والیم دس نواز شریف کوموجودہ صورتحال سے کئی گنا زیادہ مصیبت میں پھنسا جائگا۔

اس تجزیے کے آخر میں میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ فی الحال نواز شریف دباؤ سے جو حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ کسی بھی طرح ممکن نظر نہیں آتا۔ اور اگر وہ ملک میں کسی بھی قسم کی خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو یاد رکھیں کہ عوام اگر انکی کرپشن کے خلاف تحریک میں بھی ایک خاص حد سے آگے کے تصادم کو ناپسند کر چکی ہیں تو انکی کرپشن کے مقدموں سے بچنے کی تحریک میں کتنے لوگ تصادم کی راہ پر انکے ساتھ آئیں گے؟

میرا خیال ہے نواز شریف کے لیے ممکنہ آپشنز میں صرف پیپلز پارٹی کے ساتھ درون خانہ ڈیل، مولانا فضل الرحمن کی چرب زبانی اور کے پی کے میں سیاسی بغاوت، سعودی عرب جیسے ہمدردوں سے رعائت مانگنا ہی باقی رہ گیا ہے۔ سڑکوں پر انکے لیے کچھ نہیں ہے۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں