290

عجب قوم کی غضب کہانی۔

یہ کہانی ہے ایسی قوم کی جو 14 اگست کو اپنا جشن آزادی منا چکی ہے۔ یہ قوم جس قدر آزاد ہے اتنا ہی مقید بھی ہے۔ جس قدر مظلوم ہے اتنا ہی ظالم بھی ہے۔ جس قدر عالم و فاضل ہے اتنا ہی جاہل بھی ہے۔ یہ بات یقینی طور پر حیران کن ہے کہ دو بالکل مختلف مزاج کیسے اس قوم میں یکجا ہوگئے۔ اس کی صاف اور سیدھی وجہ اس کی زندگی میں رہبر و رہنما کی کمی ہے جو اسے آزادی کے ایک سال بعد سے لے کر اب تک میسر نہیں آسکا۔ اس قوم کی حالت اب اس بے چارے بچے کی ہے جس کے ماں باپ بچپن میں فوت ہوجائیں اور اسے تربیت دینے والا کوئی نہ ہو اور بے چارہ وقت اور لوگوں کے ہاتھوں مختلف تجربوں سے گذرتا رہے۔

یہی وجہ ہے کہ مناسب تربیت کے فقدان اور تلخ تجربات کی وجہ سے یہ قوم اپنے مزاج میں شدت پسند ہوگئی ہے۔ یہ محبت بھی کرتی ہے تو حد سے بڑھ کر اور نفرت بھی کرتی ہے تو وہ بھی بے حد۔ بقول شاعر۔

محبت ہو تو بے حد ہو جو نفرت ہو تو بے پایاں
کوئی  بھی کام کم  کرنا ہمیں ہرگز  نہیں آتا

اس قوم کو کوئی بھی کام کم کرنا ہرگز نہیں آتا۔ پوجنے پہ آئے تو نعوذبا للہ خدا بنا چھوڑے۔ ہاتھ تو ہاتھ گاڑی تک چوم لے۔ ایک ٹیلیفون کال پر پورا شہر بند کروادے، آگ لگادے، لاشیں گرادے۔ عدالت پر حملہ کردے، سرکاری عمارتوں پر قابض ہوجائے، عدالت سے سزا یافتہ نا اہل ہو یا پھانسی کے سزا یافتہ وزیر اعظم۔ اس قوم کے لئے دونوں قابل احترام اور قابل عزت ہیں۔ یہ عدالت کے فیصلوں کے خلاف سڑکوں پر بھی آتی ہے مگر اسی عدالت سے انصاف کی توقع بھی رکھتی ہے۔ اس قوم کے لئے سیاستدان بھی ہیرو ہے اور اسی کو گھر بھیجنے والا آمر بھی ہیرو ہے۔ جس آمر کو ایک جانور کا لقب دے کر اسے استعفٰی پر مجبور کیا تھا اس کی قصیدہ خوانی بھی کرتی نظر آتی ہے۔

یہ خود مرتی رہے، کٹتی رہے، جلتی رہے مگر یہ جس کی پوجا کرنا چاہے اسے موت کے بعد بھی مرنے نہیں دیتی اور زندہ ہے زندہ ہے کے نعرے لگا کر اپنے بھوکے اور علاج سے محروم بچوں کے لاشے اٹھاتی رہتی ہے۔

نفرت کرنے پر آئے تو لاگھ خوبیوں کے باوجود افراد کو لعنتیں اور گالیاں دینے کا فن بھی جانتی ہے۔ جن محافظوں پر دن رات سلام بھیجتی ہے انہی محافظوں پر سارا بجٹ کھاجاتے ہیں جیسے فقرے اور جمہوریت کے دشمن جیسے القابات سمیت ہر قسم کی ہرزہ سرائی بھی کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔

علم و فضل دکھانے پر آئے تو ایٹم بم کی تخلیق سمیت دنیا بھر میں علم و ٖفضل کے جھنڈے گاڑسکتی ہے۔ اور جہالت دکھانے پر آئے تو طالب علموں کو جامعہ کے اندر ہی مارکر ان کی موت پر ایسے فاتحانہ انداز دکھاتی نظر آتی ہے جیسے شکاری شیر کا شکار کر کے دکھاتا ہے۔ عزت کے بدلے عزت اتار سکتی ہے۔ اور کبھی نہتے بھائیوں پر برستے ڈنڈے دیکھ کر ویڈیو بنانا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ اس قدر کاک ٹیل ٹائپ مزاج رکھنے والی قوم دنیا میں شاید ہی کہیں ہو جو اچھی بھلی تعلیمی قابلیت رکھنے کے باوجود ٹریفک سگنل پر دو منٹ رکنا اپنی توہین سمجھتی ہو مگر وی آئی پی موومنٹ پر دو گھنٹہ صبر کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اس قوم کے جتنے فضائل بیان کیے جائیں کم ہیں جو ہزاروں روپے کا موبائیل فون تو خرید لیتی ہے مگر کال کا کریڈٹ نہیں رکھ پاتی۔ جو لاکھوں روپے کی زیرو میٹر کار خرید کر فی الفور اسے سی این جی پر منتقل کردیتی ہے۔

اس قوم کے مزاج کو سمجھنے کے لئے سقراط کا دماغ بھی ہو تو کم ہے جو چندہ، خیرات، صدقہ یا امداد دینے پر آئے تو کروڑوں کے پروجیکٹ دنوں میں پورے کردے اور کنجوسی پر آئے تو کسی بے یارومددگار کی مدد یا کسی بھوکے کو سڑک کنارے کھانا نہ دے سکے۔ کسی زخمی کو ہسپتال پہنچانے کی زحمت بھی نہ کرے۔

ایسی قوم آپ کو روئے زمین پر شاید ہی دستیاب ہو جو لاکھوں روپے کے جانور تو قربانی کے لئے خرید سکتی ہے مگر چند سو یا چند ہزار روپے کسی غریب پر قربان نہیں کرسکتی۔ جو کسی مظلوم کی حمایت میں نکل کر دھرنا تو دے سکتی ہے مگر اپنے قرب و جوار اپنے سے وابستہ نہ جانے کتنے لوگوں پر ظلم کا خاتمہ نہیں کرسکتی۔ بیان کرنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے مگر اب ہاتھوں میں غالب کے بقول۔

جنبش نہیں گر ہاتھ میں پر آنکھ میں دم ہے۔
رہنے  دو  ابھی  ساغر  و  مینا  مرے  آگے۔

کے مصداق۔

جنبش نہیں گر ہاتھ میں پر آنکھ میں دم ہے۔
رہنے  دو  ابھی  قوم  کا  چہرہ  مرے  آگے۔

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں