چند راتیں پہلے کی بات ہے، میں نے اپنے بستر پر، نیند آ جانے سے پہلے، اپنے پہلو میں سوئی، اپنی بیوی کے چہرے کو غور سے دیکھا، اس کی پیاری سی اور نرم و نازک شکل پر کافی دیر غور کرتا رہا، پھر میں نے اپنے آپ سے کہا:
کیا مسکین ہوتی ہے یہ عورت بھی،
برسوں اپنے باپ کی شفقت کے سائے تلے اپنے گھر والوں کے ساتھ پلتی بڑھتی ہے،
اور اب کہاں ایک ان واقف شخص کے ساتھ آ کر سوئی پڑی ہے،
اور اس نا واقف شخص کیلئے اس نے اپنے گھر بار ماں باپ چھوڑا،
والدین کا لاڈ و پیار اور ناز نخرا چھوڑا،
اپنے گھر کی راحت اور آرام کو چھوڑا،
اور ایسے شخص کے پاس آئی پڑی ہے جو بس اسے اچھے کی تلقین اور برائی سے روکتا ہے،
اس شخص کی دل و جان سے خدمت کرتی ہے،
اس کا دل بہلاتی ہے، اس کو راحت اور سکون دیتی ہے،
تاکہ بس اس کا رب اس سے راضی ہو جائے،
اور بس اس لئیے کہ یہ اس کیلئے اس کے دین کا حکم ہے،
سبحان اللہ۔۔۔۔
کہتے ہیں، پھر میں نے اپنے آپ سے سوال کیا:
کیسے ہوتے ہیں کچھ لوگ؛، جو بیدردی اور بے رحمی سے
اپنی بیویوں کو مار پیٹ لیتے ہیں،
بلکہ کچھ تو دھکے دیکر اپنے گھر سے بھی باہر نکال کرتے ہیں،
انہیں واپس اپنے ماں باپ کے اس گھر لا ڈالتے ہیں
جو وہ اس کی خاطر چھوڑ کر آئی تھی۔
کیسے ہوتے ہیں کچھ لوگ؛، جو بیویوں کو گھر میں ڈال کر دوستوں کے ساتھ نکل کھڑے ہوتے ہیں،
ہوٹلوں میں جا کر وہ کچھ کھاتے پیتے ہیں جس کا ان کے گھر میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا،
کیسے ہوتے ہیں کچھ لوگ؛، جن کے باہر اٹھنے بیٹھنے کا دورانیہ ان کے اپنے بیوی بچوں کے پاس اٹھنے بیٹھنے کے دورانیئے سے زیادہ ہوتا ہے۔
کیسے ہوتے ہیں کچھ لوگ؛، جو اپنے گھر کو اپنی بیوی کیلئے جیل بنا کر رکھ دیتے ہیں، نا انہیں کبھی باہر اندر لیجاتے ہیں، اور نا ہی کبھی ان کے پاس بیٹھ کر ان سے دل کا حال سنتے سناتے ہیں۔
کیسے ہوتے ہیں کچھ لوگ؛، جو اپنی بیوی کو ایسی حالت میں سلا دیتے ہیں کہ اس کے دل میں کسی چیز کی خلش اور چھبن تھی، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور اس کا گلا کسی قہر سے دبا جا رہا تھا۔
کیسے ہوتے ہیں کچھ لوگ؛، جو اپنی راحت اور اپنی بہتر زندگی کیلئے گھر چھوڑ کر باہر نکل کھڑے ہوتے ہیں، پیچھے مڑ کر اپنی بیوی اور بچوں کی خبر بھی نہیں لیتے کہ ان پر ان کے باہر رہنے کے عرصہ میں کیا گزرتی ہوگی۔
کیسے ہوتے ہیں کچھ لوگ؛، جو ایسی ذمہ داری سے بھاگ جاتے ہیں جس کے بارے میں ان سے روز محشر پوچھ گچھ کی جائے گی جیسا کہ ہمارے پیارے رسول صل اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے۔
پیارے مرد: تو ہمیشہ یہی دہراتا رہتا ہے ناں! (یقیناً تم عورتوں کا فریب بڑا (خطرناک) ہوتا ہے، (سورة يوسف-28)
کبھی تو نے اپنے آپ سے یہ سوال بھی کیا ہے کہ اس آیت میں آخر کس فریب کا اور کیوں ذکر کیا گیا ہے؟
اور اس فریب کا ذکر اور قول کس کی زبان سے منسوب کیا گیا ہے؟
اور اس فریب کا سبب کیا بتایا گیا ہے؟
کسی کی محبت کیلئے! کسی کے حسن و جمال کیلئے! کسی کی شرم و حیا کیلئے! کیونکہ اس زمانے کی عورتوں کا عاشق مزاج ہونا عام بات تھی ناں!
اور پھر یہ قول نکلا ہوا کس کی زبان سے ہے؟
“عزیر” کی زبان سے ناں؟
اور پھر یہ قول نکلا کس کیلئے ہے؟
“عزیز” کی اپنی بیوی اور اس زمانے کی عورتوں کیلئے ناں؟
لیکن؛
تو نے کبھی مردوں کے مکر و فریب کے بارے مین بھی سنا کیا؟
(اے میرے بیٹے! اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا، ورنہ وہ تمہارے خلاف کوئی پُر فریب چال چلیں گے۔ بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے، (سورۃ یوسف -5)
اس آیت کو پڑھ اور غور سے دیکھ؛ اس میں کس مکر و فریب کا ذکر کیا جا رہا ہے؟
پھر یہ بھی دیکھ کہ اس فریب کے بارے میں بتانے والا کون ہے؟
اور یہ فریب ہے کن کا؟ اور اس فریب کا سبب کیا ہے؟
حسد، کراہت، ناپسندیدگی، ظلم-
اور پھر یہ قول نکلا ہوا کس کی زبان سے ہے؟
سیدنا یعقوب علیہ السلام کی زبان مبارک سے ناں!
اور پھر یہ قول نکلا کس کیلئے ہے؟
خود سیدنا یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کیلئے ناں؟
اچھا تجھے اس بات کا تو علم ہے ہی
کہ تمہارے (مردوں کے) مکر و فریب کا ذکر عورتوں کے مکر و فریب سے پہلے بیان کیا گیا ہے۔ فرق واضح ہے کہ:
انہوں نے مکر و فریب کس سے سیکھا؟
انہوں نے یہ مکر و فریب بھی تو ہم مردوں سے ہی سیکھا۔
ہمارا (مردوں کا) مکر و فریب کراہت کیلئے تھا،
اور ان عورتوں کا مکر و فریب محبت کیلئے تھا۔
ہمارے مکر و فریب کا ذکر سیدنا یعقوب کی زبان سے نکلا ہے،
اور ان کے مکر و فریب کا ذکر “عزیز” کی زبان سے نکلا ہے۔
کس کی بات میں زیادہ حکمت و دانائی ہے_____؟
306