میں اسکول سے سائکل پر گھر واپس آتا تھا۔
ہماری کالونی میں دو سڑکیں تھیں۔ ایک ٹوٹی پھوٹی، اور گندے پانی سے بھری ہوئی، دوسری نسبتاً بہتر اور گزارے لائق۔ میں ہمیشہ بہتر سڑک سے واپس گھر آتا۔ ایک دن محلے کا چوکیدار سلام دعا کے بعد بولا، بابو صیب! لگتا ہے آپ کو یہ والا سڑک بوت پسند ہے، ام آپ کو ہمیشہ ایدھر سے آتے دیکھتا ہے۔
میں ہنس دیا، اسکے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا، خان بھیا، جس دن دوسری والی سڑک بہتر ہو جائیگی، آپ مجھے اس پر دیکھو گے۔
ہمارے محلے میں دو چائے والی ڈھابہ دوکان تھیں۔ ایک کے دودھ کے برتنوں پر مکھیاں بھنبھناتی تھیں، پتلا پانی دودھ ہوتا تھا، اور چائے وہ ایسی بناتا کہ دوسرا گھونٹ لینے کے لیے خود کو یاد کروانا پڑتا کہ پیسے دینا ہیں۔
دوسری دوکان نسبتاً بہتر تھی، چائے والا اچھا اور خوش اخلاق بھی تھا، اور دودھ بھی تھوڑا بہتر لاتا تھا۔ چائے میں کچھ زایقہ بھی تھا، اور بنچوں پر کپڑا بھی مار رکھتا تھا۔ میں ہمیشہ چائے وہاں پیتا تھا۔ وہاں بھی خان بھائی نے ایک دن چائے پر پکڑا، بھائی صیب، اسکا چائے لگتا آپ کو بوہت پسند اے؟
میں نے خان کے کاندھے پر ہاتھ مارا، اور بولا، خان لالا، جس دن اس کالونی میں چائے کی اس سے اچھی دکان کھل گئی ، آپ کی پہلے ماہ کی چائے میری طرف سے۔
شہد کی مکھی ہمیشہ پھول پر بیٹھتی ہے۔ کیونکہ اسے شہد بنانے کے لیے رس کی ضرورت ہوتی ہے۔ رس ہمیشہ پھول میں ہوتا ہے، کانٹے میں نہیں۔ رب تخلیق نے شہد کی مکھی میں یہ “لاجک” رکھ دی ہے کہ وہ پھول کو پہچانے اور اسی سے رس حاصل کرے۔ اب ہمارے خان بھیا ہوتے، تو کہتے اے شہد کی مکھی بہن، لگتا ہے تمہیں پھول بوہت پسند ہیں؟ پھول شہد کی مکھی کی پسند نہیں ضرورت ہیں۔ آپ شہد کی مکھی کو پھولوں سے بہتر آلٹرنیٹو لا دو، وہ پھول چھوڑ دے گی۔
آپ کو گاڑی کے لیے انجن آئل کی ضرورت ہے۔ آپ مکینک کے پاس جاتے ہو۔ وہ آپ کو زیتون کا تیل دیتا ہے اور کہتا ہے کہ صاحب، میری مانیں یہ انجن میں ڈالیں، کیا اسکا زائقہ ہے، کیا اسکی خوشبو ہے۔ اور اسکا زکر تو قران شریف میں بھی آیا ہے۔ بس اللہ کا نام لیکر اس کو انجن میں ڈالیں، اللہ خیر کرے گا۔ ۔ ۔ کیا آپ اس مکینک کی بات مان لیں گے؟ یا پھر آپ انجن آئل پر ہی اصرار کریں گے؟ اور اگر ایسے میں میرے خان بھیا کہیں آس پاس ہوتے، اور آپ کی طرف دیکھ کر میٹھی میٹھی ہنسی ہنستے اور کہتے، ۔ ۔ ۔ ہی ۔ ۔ ہی ۔ ۔ ۔ ہی ، دیکھو صیب ! آپ کو لگتا ہے شائد انجن آئل ، زیتون کے تیل سے زیادہ اچا لگتا ہے ؟ ہے نا ؟؟
اب آپ سوچتے ہونگے کہ ان چاروں مثالوں کا پرو عمران ہونے سے کیا تعلق؟
جو دوست مجھے پرو عمران کہتے ہیں وہ شائد نہیں جانتے کہ میں ہر روز سائکل پر سوار اپنے گھر جانے کا بہترین راستہ سوچتا ہوں، اور ہر دفعہ جواب وہ کم ٹوٹی اور بہتر سڑک ہی نکلتا ہے، جس دن مجھے سے سے بہتر راستہ مل گیا تو میں اپنی سائیکل اس طرف موڑ دونگا، کہ میرا مقصد گھر پہنچنا ہے۔
اسی طرح میں ہر روز چائے کے لیے ڈھابے پر جاتے موازنہ کرتا ہوں، اور صفائی والا، اچھی چائے پکانے والا ہی میرا انتخاب ٹھہرتا ہے کہ میرا مقصد اچھی چائے پینا ہے، چائے کے لیے غیر جانبداری ثابت کرنا نہیں کہ ایک دن میں اچھی چائے پیوں اور اگلے روز مکھیوں والی۔ البتہ جس روز مجھے اس چائے سے بہتر چائے، اچھے کپ، اور صاف ماحول مل گیا تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ادھر کو چل پڑوں گا۔
اللہ نے انسان میں شہد کی مکھی کی طرح اپنی بقا کی صلاحیت رکھ دی ہے۔ اس بقا کی خاطر اسکو شہد بنانا ہوتا ہے اور اس شہد کے لیے وہ پھولوں کی طرف جاتی ہے۔ اسی طرح رب عظیم نے بقا کی جو سوچ مجھے عطا کی ہے، اسی کو کام میں لاتے ہوئے میں اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کا سوچتا ہوں۔ اور سب پھول ہونے کے دعویدار سیاستدانوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے عمران خان ہی موجودہ لاٹ میں باقی سب سے بہتر نظر آتا ہے۔ میری نظر میں وہی ہے جو اس وقت میرے ملک کی بہتری کے لیے ناگزیر ہے۔ میں باقی سارے پھول سونگھ چکا ہوں، پھول نظر آنے والے کانٹوں پر بھی بیٹھ چکا اور کاغذی پھولوں کے رنگوں سے بھی دھوکا کھا چکا۔ اب میں ہر بار اس ایک پھول کی جانب ہی لپکتا ہوں کہ وہی واحد آپشن نظر آتا ہے۔
زیتون کے تیل کی مثال اس لیے دی کہ کچھ لوگ کہیں گے اگر آپ کو صادق و امین چاہیے تو لالا سراج بھی تو ہیں۔ ان کے لیے یہ مثال حاضر ہے کہ زیتون کا تیل اگرچہ کتنی خوبیوں کا مالک ہو، انجن چلانے کے لیے انجن کا تیل چاہیے۔ عمران خان نے سیاست کے اندر رہ کر جس قدر اثر پاکستانی سیاست پر ڈالا ہے، لالا سراج ابھی اس کے دس فیصد تک بھی نہیں پہنچے۔
خان بھیا ! میں پرو عمران نہیں ہوں ، مگر ہر دفعہ اسی سڑک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔
عمران خان اس ملک کی واحد بڑی جماعت ہے جس کا سربراہ پر اسکے بدترین دشمن بھی کرپشن ثابت نہیں کر سکے۔
عمران خان میرے ملک کا واحد سیاسی لیڈر ہے جس نے اتنی بڑی سیاسی جماعت اپنی محنت اور مستقل مزاجی سے کھڑی کی ہے، باقی دونوں جماعتیں یا موروثی ہیں یا پہلے سے کسی جماعت کی ایکسٹینشن۔
عمران خان واحد سیاسی لیڈر ہے جو الیکشن کے بعد بھی وہی کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کا وہ الیکشن میں وعدہ کرتا ہے۔
عمران خان واحد سیاسی جماعت ہے جس میں موروثیت کی گنجائش کم ہے۔
عمران خان واحد سیاسی جماعت ہے جس میں مخلاف آوازوں کو کسی حد تک سنا جاتا ہے۔
عمران خان واحد سیاسی جماعت ہے جس میں لیڈروں کے بچے پارٹی کے بزرگوں کے کاندھوں پر سوار نظر نہیں آتے۔
عمران خان بحیثیت انسان بھی، میرے ملک میں موجود باقی سب سیاستدانوں سے کہیں بہتر انسان ہے۔
عمران خان کی بشری غلطیوں کے باوجود اسکی کامیابیوں کی ایک طویل لسٹ ہے میرے ملک کے لیے ، جس سے میں کبھی نظر نہیں پھیر سکتا۔
عمران خان میری زندگی کے عرصے میں واحد سیاسی لیڈر ہے جس سے مجھے میری آئندہ نسلوں کی بہتری کی امید لگتی ہے۔
خان بھیا! آپ مجھے اس سے بہتر دوسرا بندہ ، دوسری جماعت لادیجیے، میں فوراً اپنی سائکل ادھر موڑ دونگا۔
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}