ایک عورت کی زیادہ مردوں سے شادیاں کرنے کے نظریے کو پولی اینڈری کہتے ہیں اور اسے جنوبی افریقہ کی ایک خاتون سے اخذ کیا جاتا ہے جب یہ خاتون صرف بارہ سال کی تھی اور چھٹی کلاس میں پڑتی تھی تو بیالوجی کے ایک سبق میں اس نے یہ پڑھا کہ شہد کے چھتے میں موجود ملکہ مکھی کے کئی نر مکھیوں سے تعلقات ہوتے ہیں، اس وقت یہ خاتون نابالغ تھی لیکن اس نے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلی اور بالغ ہونے پر اس نے پہلے کئی مردوں سے جنسی تعلقات ایک ساتھ قائم کیئے اور ان تعلقات کا تجزیہ کیا تو اسے زیادہ خوشی اور راحت محسوس ہوئی، لہذا اس نے اپنے جاننے والے مرد دوستوں سے کئی شادیاں کرلیں۔ اس خاتون کے موجودہ چار خاوند ان نو افراد میں شامل ہیں جن سے وہ ماضی میں جنسی تعلقات قائم کیے ہوئے تھیں۔ پولی اینڈری میں عورت ہی اکثر تعلقات قائم کرنے میں پہل کرتی ہے اور اپنے دیگر شوہروں کو بھی اپنی شادی میں مدعو کرتی ہے۔ ان میں سے کچھ برائیڈ پرائس یعنی دلہن کی قیمت ادا کرتے ہیں جبکہ دوسرے اس کی زندگی کی ضروری اشیا خریدنے کے لیے حصہ ڈالتے ہیں۔ اس عمل میں بیوی ایسے شوہر کو طلاق بھی دے سکتی ہے جس کے بارے میں اس کا خیال ہو کہ وہ دیگر مردوں کے ساتھ اس کے جنسی تعلقات کو خراب کر رہا ہے۔
پروفیسر کولس ماچوکو نے اپنے آبائی ملک زمبابوے میں پولی اینڈری سے متعلق تحقیق کی ہے۔ انھوں نے کوئی 20 خواتین سے اس متعلق بات کی ہے اور ایسے 45 مردوں سے بات کی ہے جو ایسی خواتین کے شوہر ہیں جن کی ایک سے زیادہ شادیاں ہوئی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسی شادیاں معاشرے میں باعث شرم سمجھی جاتی ہیں اور قانون میں بھی ان کی گنجائش نہیں ہے۔ ایسے میں ایک عورت چھپ کر ایک سے زائد مردوں سے شادی کرتی ہے۔ جب وہ کسی ایسے شخص سے ملتی ہیں جس پر انھیں اعتماد نہیں ہوتا یا اس کے بارے میں وہ کچھ جانتی نہیں ہیں تو ایسے میں وہ سرے سے ایسی شادیوں سے ہی انکاری ہو جاتی ہیں۔ اس انکار کا مقصد سخت ردعمل سے بچنا ہوتا ہے۔ پروفیسر کولس ماچکو کی تحقیق میں ایسے لوگ شامل ہیں جو علیحدہ رہتے ہیں مگر وہ اس قسم کے پولی اینڈریس قسم کے اجتماعات میں شریک ہونے کے لیے پرعزم ہیں اور وہ آپس میں ایسی شادیوں کے قائل ہیں۔ پروفیسر کولس کے مطابق جن مردوں کا انھوں نے انٹرویو کیا ہے ان کا کہنا تھا کہ وہ محبت کی وجہ سے ایسی شادی پر راضی ہوئے تھے۔ بس وہ اپنی محبت کو کھونا نہیں چاہتے تھے۔ کچھ مردوں کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بیگمات کو جنسی اطمینان فراہم نہیں کر سکتے تھے اور ایسے میں طلاق دینے اور دوسرے مردوں سے تعلقات قائم کرنے کے بجائے نئی شادی کی اجازت دی۔ ایک اور وجہ بانجھ پن تھی۔ کچھ مردوں نے اپنی بیگمات کو مشورہ دیا کہ وہ کسی اور سے بھی شادی کر لیں تاکہ اس کے بچے ہو سکیں۔ اس طرح مرد بھی اپنی عزت بچا لیتے ہیں اور لوگوں کی نظروں میں داغدار ہونے سے بچ جاتے ہیں کہ وہ بچے نہیں جن سکتے۔
جنوبی افریقہ کی حکومت کی طرف سے پولی اینڈری یعنی ایک وقت میں ایک خاتون کو ایک سے زائد افراد کے ساتھ شادی کو جائز قرار دینے کی تجویز پر ملک میں موجود قدامت پسند حلقوں کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے کو آیا ہے۔ پولی اینڈری کے مضمون پر مہارت رکھنے والے پروفیسر کولس ماچوکو کے لیے کوئی زیادہ حیرت کی بات نہیں ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس تجویز پر اعتراض کا مقصد عورت پر کنٹرول ختم ہونے کا ہے۔ ان کے مطابق افریقی معاشرے صیحح معنوں میں مساوات کے قائل نہیں ہیں۔ ہمیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ ایسی خواتین کے ساتھ کیا کریں جن پر ہمارا بس نہیں چلتا۔ جنوبی افریقہ کا آئین دنیا کا ایک لبرل ترین آئین ہے، جو ہم جنس پرستوں کی شادی کو جائز قرار دیتا ہے اور مردوں کے لیے زیادہ شادیوں کی بھی اجازت دیتا ہے۔کاروباری شخصیت اور ٹی وی پروگرام کے میزبان موسیٰ مسیلیکو جن کی چار بیویاں ہیں بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو خواتین کے لیے زیادہ شادیوں کی اس تجویز کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ چیز افریقی ثقافت کو تباہ کر دے گی۔ ان لوگوں کے بچوں کا کیا بنے گا؟ وہ اپنی شناخت کے بارے میں کیسے جان سکیں گے۔ اب خواتین مرد کا کردار بھی ادا کر سکیں گی۔ یہ پہلے کسی نہیں سنا ہوگا۔ اب کیا خواتین لا بولا یعنی برائیڈ پرائس بھی ادا کریں گی۔ کیا مرد اس عورت کے خاندانی نام کو اپنے نام کے ساتھ لکھ سکیں گے؟