برطانیہ کے مختلف سرکاری اور غیر سرکاری محکموں اور شعبوں میں کام کرنے والے لوگوں کی تنخواہوں اور مراعات کاتعین اُن کی اہلیت، قابلیت، صلاحیت، ذمہ داری اور کارکردگی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے رکن ہوں یا عدالتوں کے جج، فوج کے افسران اور اہلکار ہوں یا پولیس کے ملازمین، کسی پرائیویٹ فرم میں کام کرنے والے سکیورٹی گارڈز ہوں یا نیشنل ہیلتھ سروس کے لئے خدمات انجام دینے والے ڈاکٹرز یا نرسز، سکول کالج یا کسی یونیورسٹی میں پڑھانے والے استاد ہوں یا کسی اخبار اور ٹی وی چینل کے صحافی، کونسلز کا عملہ ہو یا کسی سٹور اور فیکٹری کا کوئی ورکر، ہر ایک کو اس کے کام کے مطابق معقول تنخواہ ملتی ہے۔ جہاں تک مراعات کا تعلق ہے تو اس کے لئے بھی ضابطے مقرر ہیں۔ کسی کو محض جج وزیر یا فوج کا افسر ہونے کی وجہ سے بلاجواز مراعات سے نہیں نوازا جاتا ہے۔ برطانیہ میں شاہی خاندان کے علاوہ کسی کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا تعلق مراعات یافتہ طبقے سے ہے۔ اگر کہیں کسی کو ناجائز مراعات مل بھی رہی ہوں تو اُسے عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور عدالت بھی اس معاملے میں انصاف کے تقاضے پورے کرتی ہے۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ برطانوی عدلیہ یا پارلیمنٹ ایسے قانون بنا لے یا ایسے ضابطوں کو منظور کر لے جس میں وہ اپنے لئے ہر طرح کی مراعات کو جائز اور قانونی قرار دے کر اُسے اپنا حق سمجھنے لگے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایسی مراعات اور سہولتوں سے استفادہ کر ے جو کسی خود ساختہ قانون کا نتیجہ ہوں۔ یونائیٹڈ کنگڈم میں سرکاری محکموں کے بڑے بڑے افسران یا ججوں کو نہ تو سرکاری گاڑیاں دی جاتی ہیں اور نہ ہی انہیں پٹرول، بجلی، گیس کے اخراجات کے لئے کوئی الاؤنس یا مراعات ملتی ہیں۔ البتہ اُن کی تنخواہیں اس قدر ضرور ہوتی ہیں کہ ان کی زندگی سہولت اور آسانی سے بسر ہو سکے۔ دوسری دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ برطانوی تاجروں، سیاستدانوں، افسر شاہی، ججوں اور فوج کے اعلیٰ افسران کی اکثریت ہوس زر یا مال بنانے کے جنون میں اس طرح مبتلا نہیں جیسا کہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک اور خاص طور پر پاکستان کے یہ پانچوں طبقات ہیں۔ مسلمانوں کو بار بار یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ کے آخری نبیؐ کی اُمت کے لئے سب سے بڑی آزمائش دولت اور اولاد ہے اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اپنی ساری زندگی جائز و ناجائز طریقے سے مال ودولت کمانے اور اپنی اولاد کے لئے بہت کچھ چھوڑ جانے کو اپنی پہلی ترجیح بنائے رکھتی ہے۔ برطانیہ میں سپریم کورٹ سے کاؤنٹی کورٹ اور مجسٹریٹ کورٹ کے ججوں کی تنخواہیں 90ہزار پاؤنڈ سے ڈھائی لاکھ پاؤنڈ سالانہ تک ہوتی ہیں جس میں سے ایک بڑا حصہ ٹیکس میں کٹ جاتا ہے۔ اسی طرح برطانوی پارلیمنٹ کے رکن کی سالانہ تنخواہ تقریباً 84ہزار پاؤنڈ ہے جس میں سے ٹیکس کی ادائیگی بھی کی جاتی ہے۔ برطانوی فوج کے کیپٹن سے چیف آف آرمی سٹاف کی سالانہ تنخواہ 60ہزار پاؤنڈ سے ایک لاکھ 21ہزار پاؤنڈ تک ہوتی ہے۔ برطانوی فوج یا اس کے کسی ذیلی ادارے کو نہ تو کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے یا کسی اور طرح کا کوئی کاروبار کرنے کی اجازت ہوتی ہے اور نہ ہی انہیں ریٹائرمنٹ پر کوئی کمرشل پلاٹ یا اراضی الاٹ کی جاتی ہے۔ برطانوی عدالتوں کے جج بھی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی پنشن پر گزارہ کرتے ہیں۔ نہ تو انہیں کسی قسم کے پروٹوکول اور سیکورٹی کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ ہی ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں ”جہیز“ میں کوئی ملازم یا مراعات ملتی ہیں۔ایک اور دلچسپ حقیقت یہ بھی کہ برطانوی جرنیل اور جج میڈیا کے ذریعے نمایاں ہونے یا اپنی کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹنے کے خبط میں بھی مبتلا نہیں ہوتے اور نہ ہی برطانوی میڈیا اس معاملے میں ان کی ذاتی تشہیر کی طرف کوئی توجہ دیتا ہے۔ برطانیہ میں ہر شعبے کے لوگ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں، یہاں کے جج نہ تو کسی معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہیں اور نہ ہی فوج کو ضرورت پیش آتی ہے کہ وہ فارن آفس یا وزیر اعظم کو کسی قسم کی ڈکٹیشن دے۔ جج صرف اور صرف فوری اور آسان انصاف کی فراہمی کو اپنی پہلی اور آخری ترجیح بنائے رکھتے ہیں۔ فوج کے اعلیٰ افسران اور ارباب اختیار ملکی دفاع اور سیکورٹی کے علاوہ کسی اور معاملے کی طرف دھیان نہیں دیتے اور نہ ہی برطانوی قانون انہیں اس کی اجازت دیتا ہے۔ سیاستدان عوامی خدمت اور قانون سازی کو اپنی اولین ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ یکم جنوری 1801ء کو قائم کی گئی اور 1911ء تک اس پارلیمنٹ کے اراکین بغیر کسی تنخواہ یا معاوضے کے کام کرتے تھے۔ اس وقت برطانوی پارلیمنٹ (ہاؤس آف کامنز) کے 650 اور ہاؤس آف لارڈز کے 784ممبرز ہیں جن کی پہلی ترجیح اپنے ملک و قوم کی بہتری کے لئے قانون سازی کرنا اور اُن کے مسائل کو حل کرنا ہے۔ میں کئی بار یہ سوچ کر حیران ہوتا ہوں کہ پاکستان کی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز اور ہمارے حکمران اور سیاستدان برطانیہ آتے ہیں، یہاں قیام بھی کرتے ہیں، جلاوطنی کی زندگی بھی گزارتے ہیں۔کیا انہیں برطانیہ کا نظامِ انصاف اور جمہوری اقدار دیکھ کر خیال نہیں آتا کہ وہ بھی پاکستان میں ایسے ہی نظامِ سیاست اور نظامِ عدل کو فروغ دیں کہ جس سے عام لوگوں کی زندگی آسان ہو اور وہ مسائل اور مصیبتوں کی دلدل میں مزید دھنسنے سے محفوظ ہو جائیں۔ اسی طرح ہمارے جو فوجی افسران اور ارباب اختیار برطانیہ کی سینڈ ہرسٹ اکیڈمی میں فوجی تربیت کے لئے آتے ہیں یا چھٹیاں گزارنے کے لئے یونائیٹڈ کنگڈم کا رخ کرتے ہیں کیا انہیں برطانوی فوج اور ایجنسیوں کو اپنی حدود و قیود میں رہ کر کام کرتے ہوئے دیکھ کر یہ خیال نہیں آتا کہ ہماری اول و آخر ترجیح بھی صرف ملک و قوم کا دفاع اور سیکورٹی ہونی چاہئے۔ معلوم نہیں مسلمان ملکوں اور خاص طور پر پاکستان میں زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے اور اختیار و اقتدار کے حصول کی ہٹرک اور طلب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اتنی شدید کیوں ہوتی جا رہی ہے۔اپنے وسائل پر قناعت کرنا اب ہمارے طرز زندگی کا حصہ نہیں رہا۔ ہر طبقہ اپنے معمولی سے فائدے کے لئے ملک و قوم کا بڑے سے بڑا نقصان کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے بلکہ گذشتہ چند دہائیوں میں جس طرح لوگوں کو مسلک، قومیت، علاقائیت اور طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے اس کے نتیجے میں یوں لگتا ہے کہ ہماری سرحدوں کے اندر پاکستانی قوم نہیں بلکہ ایک ہجوم آباد ہے اور اس ہجوم کو کوئی بھی سیاستدان، ملک دشمن، جاہل مولوی یا نام نہاد قوم پرست اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔ ہمارے ملک کے وسائل پر قابض وہ تمام طبقات جو شاپنگ اور چھٹیاں گزارنے کے لئے لندن یا یورپ کے دیگر مہنگے شہروں میں آتے ہیں اور یہا ں سے ایسی قیمتی اشیاء خرید کر پاکستان لاتے اور اپنے گھروں کو سجاتے ہیں جنہیں دیکھ کر محروم طبقے کے لوگ اُن پر رشک کرتے ہیں تو کیا یہ ممکن نہیں کہ ہمارے یہ ارباب اختیار ان ترقی یافتہ ملکوں کے نظام سیاست اور نظام عدل کو بھی پاکستان لانے کی کوشش کریں جس سے صرف ان کا اپنا گھر ہی نہیں بلکہ پورا پاکستان استفادہ کر سکتا ہے۔یا شاید وہ ایسے نظام کو پاکستان میں لانے سے اس لئے ڈرتے ہیں کہ اگر وطنِ عزیز میں حقیقی جمہوری نظام رائج ہو گیا اور ایسا عدالتی نظام بن گیا جس میں سو فیصد انصاف کے تقاضے پورے ہونے لگے تو اس سے ان اربابِ اختیار کی اپنی بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔ پاکستان میں ہوسِ زر اور ہوسِ اقتدار کے پجاریوں کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ قدرت کا نظامِ انصاف اٹل ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے بلاول زرداری تک، ضیاء الحق سے نواز شریف اور مریم نواز تک، مولوی مشتاق سے افتخار چوہدری اور ثاقب نثار تک، عمران خان سے جہانگیر ترین اور علیم خان تک، جنرل اسلم بیگ سے جنرل کیانی اور قمر جاوید باجوہ تک، مفتی محمود سے خادم رضوی اور فضل الرحمن تک جس جس نے ملک و قوم کے لئے نیک نیتی سے کام کیا اور پاکستان کے عوام کی مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کی قدرت نے انہیں اس کا ویسا ہی اجر دیا بلکہ اب تو پاکستان کے مجبور، محکوم، بے بس، لاچار اور حالات کے ستائے ہوئے لوگ آسمان کی طرف منہ کر کے بددعائیں نہیں بلکہ دعائیں کرنے لگے ہیں کہ اے اللہ تو ہمارے ملک کے اصل حکمرانوں، سیاستدانوں اور اربابِ اختیار کو ان کی ”کارکردگی“ کا ویسا ہی صلہ دے جیسا کہ انہوں نے اس ملک و قوم کے ساتھ سلوک روا رکھا ہے۔ ان کوویسی ہی ”نیک نامی“ سے نواز جس ”خلوص نیت“ سے انہوں نے اپنے عوام کی خدمت کی ہے۔
سارے بے بس جو زمانے کے ستائے ہوئے ہیں
ہاتھ اب اپنے دعاؤں کو اُٹھائے ہوئے ہیں
٭٭٭٭٭٭