مسلمان اور خاص طور پر پاکستانی مسلمان جب ہجرت کر کے کسی غیر مسلم ملک میں آباد ہوتے ہیں یا سیاحت کے لئے کسی مغربی معاشرے یا ملک میں جاتے ہیں تو سب سے پہلے انہیں حلال خوراک کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ اسی لئے دنیا بھر میں آباد مسلمان چھٹیاں گزارنے کے لئے دبئی یا مڈل ایسٹ، ترکی، مراکو، انڈونیشیا، ملائشیا اور دیگر ایسے ممالک کو ترجیح دیتے ہیں جہاں حلال فوڈ کی سہولت سے فراہمی کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا۔ ایک زمانے میں لندن اور برطانیہ کے مختلف شہروں میں حلال فوڈ کی دستیابی مسلمانوں کے لئے ایک بڑا مسئلہ تھا لیکن اب پورے یونائیٹڈ کنگڈم میں حلال خوراک آسانی سے میسر آ جاتی ہے۔ 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں جو مسلمان یوکے آتے تھے وہ کئی کئی مہینے صرف دالیں، سبزیاں،چاول،مچھلی اور انڈے کھا کر گزارہ کرتے تھے حتیٰ کہ مرچ اور مسالے بھی دستیاب نہیں تھے۔ 1960ء کی دہائی کے وسط میں جب برطانیہ میں مسلمان تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا تو یہاں حلال گوشت کی دستیابی کا تقاضا بھی بڑھتا گیا۔ چنانچہ برطانوی حکومت نے مسلمان کمیونٹی کی ضرورت کے پیش نظر مذبح خانوں میں جانوروں کو اسلامی طریقے سے ذبح (حلال) کرنے کی اجازت دی اور اب برطانیہ کے 4سو سے زیادہ مذبح خانوں میں تقریباً ایک سوسلاٹر ہاؤس ایسے ہیں جہاں حلال جانوروں اور مرغیوں کو اسلامی طریقے سے ذبح کیا جاتا ہے اور اس وقت برطانیہ میں حلال گوشت کی انڈسٹری کا بزنس 2.6بلین پونڈ سالانہ سے تجاوز کر چکا ہے اور پورے ملک میں ڈیڑھ ملین سے زیادہ مسلمان حلال گوشت کھاتے ہیں یا حلال گوشت کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ برطانیہ اور یورپ میں چونکہ صرف انسانوں کا ہی نہیں بلکہ جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاتا ہے اس لئے حلال سلاٹر ہاؤسز پر پابندی ہے کہ وہ جانوروں کو اسلامی طریقے سے ذبح کرنے سے پہلے انہیں بے ہوش یا نیم بے ہوش کریں تاکہ گردن کٹنے پر جانوروں کو کم سے کم تکلیف ہو۔ ویسے تو برطانیہ میں 12ایسی اتھارٹیز ہیں جو حلال فوڈ کے لئے سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہیں لیکن ان میں حلال فوڈ اتھارٹی (HFA) اور حلال مانیٹرنگ کمیٹی (HML) کے سرٹیفکیٹس کو اولیت اور اہمیت دی جاتی ہے۔ حلال فوڈ اتھارٹی کا قیام 1994ء میں عمل میں آیا اور آجکل ڈاکٹر غیاث صدیقی اس کے سربراہ ہیں۔ 1974ء میں حلال گوشت کی مانیٹرنگ کا سلسلہ شروع ہوا اور 1993ء کے بعد گوشت کے علاوہ بھی ایسی خوردنی اشیاء کو مانیٹر کیا جانے لگا جن میں حرام اجزاء یا کیمیکل کی موجودگی کا امکان ہو۔ برطانوی ضابطے کے مطابق جانوروں کو ذبح کرنے سے پہلے بے ہوش کرنا لازمی ہوتا ہے اس لئے بہت سے مسلمان بے ہوش کئے گئے جانور کو اسلامی طریقے سے ذبح کرنے کو حلال تسلیم نہیں کرتے۔ اس لئے برطانیہ میں تقریباً 8فیصد جانوروں کو بے ہوش کئے بغیر اسلامی طریقے سے ذبح کیا جاتا ہے۔ برطانیہ میں آباد بہت سے مسلمان یہودیوں کے ذبح کئے ہوئے کوشر میٹ کو بھی حلال تصور کر کے کھا لیتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہودی بھی جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح کرتے ہیں۔ حلال فوڈ اور خاص طور پر حلال گوشت کے معاملے میں برطانیہ کے مسلمانوں میں کئی طرح کے اختلافات ہیں۔ ایسے مسلمان تاجر جو شراب اور دیگر حرام مصنوعات کے کاروبار سے دولت کماتے ہیں اُن کی کمائی بھی حرام ہے اس لئے اُن کا حرام یا حلال گوشت کھانا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ بہت سے مسلمان جو شراب پینے کے رسیا ہیں جب نشے میں دُھت ہو کر کسی ایشیائی ریسٹورانٹ میں کھانا کھانے جاتے ہیں تو پہلے اس بات کی ضرور تسلی کر لیتے ہیں کہ وہاں سو فیصد حلال کھانا دستیاب ہے یا وہاں کسی حلال فوڈ اتھارٹی کا سرٹیفکیٹ آویزاں ہے۔ ایک بار پاکستان کے ایک بہت بڑے عالم دین سے کسی نے برطانیہ میں استفسار کیا کہ جو لوگ حرام کی کمائی یا شراب کے کاروبار سے ہونے والے منافع سے کسی مسجد کو چندہ یا عطیات دیتے ہیں تو کیا اُن کی یہ مالی امداد لینا مسجد کی انتظامیہ کے لئے جائز ہے تو انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے جواب دیا کہ جب کوئی مسجد تعمیر ہوتی ہے تو وہاں ٹوائلٹس یا واش رومز بھی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے عطیات کو اِن ٹوائلٹس وغیرہ پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ چند برس پہلے برمنگھم کی ایک تقریب میں مسلمان مہمانوں کو حرام جانور کے گوشت کا سالن کھلا دیا گیا۔ تقریب کے اختتام کے بعد معلوم ہوا کہ مہمانوں نے جو گوشت کھایا ہے وہ حلال نہیں تھا۔ اس انکشاف کے بعد کئی مسلمان مہمانوں کو بڑی تشویش لاحق ہوئی اور چند ایک نے تو یہ کہہ کر خود کو مطمئن کر لیا کہ شکر ہے انہوں نے صرف شوربے سے ہی روٹی کھائی تھی۔ برطانیہ اور یورپ میں بہت سے مسلمان ایسے بھی ہیں جو غیر حلال ریسٹورانٹس یا میکڈونلڈ وغیرہ سے چکن اور بیف لے کر کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لیتے ہیں اور یہ تصور کرتے ہیں کہ اب اس کا کھانا اُن پر حلال ہو گیا ہے جبکہ بہت سے مسلمان ایسے بھی ہیں جو برطانیہ میں بکنے والی کریم، صابن یا کھانے پینے کی کسی بھی قسم کی اشیاء کے استعمال سے پہلے اس کے لیبل کو غور سے پڑھتے ہیں کہ اس میں کسی قسم کے حرام اجزاء یا جانوروں کی چربی تو استعمال نہیں کی گئی۔ یہ لوگ مکمل تسلی کرنے کے بعد ہی ایسی اشیاء خریدتے ہیں بلکہ بہت سے مسلمان جب کسی ریسٹورانٹ پر حلال کا سائن لگا دیکھتے ہیں تو کھانا آرڈر کرنے سے پہلے حلال سرٹیفکیٹ دکھانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر سرٹیفکیٹ کسی برطانوی اتھارٹی کی بجائے یورپ کے کسی ملک کا ہو تو وہ اسے بھی حلال تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ کئی برس پہلے میں نے ایک مذاکرے میں حلال فوڈ اتھارٹی اور حلال مانیٹرنگ کمیٹی کے ذمہ داروں کو مدعو کیا اور ان سے پوچھا کہ برطانیہ میں حلال گوشت کی جو مقدار ہر روز استعمال میں آتی ہے کیا برطانیہ کے تمام حلال مذبح خانے اس ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں یا کر رہے ہیں تو اس کا جواب تھا کہ اگر تمام حلال سلاٹر ہاؤس دن رات بھی کام کریں تو صرف پچاس فیصد ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ برطانیہ میں آباد مسلمان 50فیصد حرام گوشت حلال سمجھ کر کھاتے ہیں یعنی گوشت کی دکانوں پر پچاس فیصد حلال اور پچاس فیصد حرام گوشت بکتا ہے جسے وہ صرف حلال کے سرٹیفکیٹ لگاکر اپنے گاہکوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ صرف مسلمان ہی نہیں بہت سے غیر مسلم اور گورے بھی حلال گوشت کھانے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ جب کسی جانور کو اسلامی طریقے سے ذبح کیا جاتا ہے تو اس کے جسم کا تمام خون بہہ جاتا ہے اور اگر جانور کو خون کی کوئی بیماری لاحق ہو تو اس کے اثرات انسانوں تک پہنچنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔ حرام اور حلال کے معاملے میں سب سے بنیادی اہمیت اس کمائی اور آمدنی کی ہے جس سے کھانے پینے اور ضرورت کی اشیاء خریدی جاتی ہیں۔ اس لئے آمدنی کا حلال ہونا بنیادی شرط ہے۔جن ممالک اور معاشروں میں حرام اور حلال کا فرق ختم ہو جائے وہاں حلال کی روزی کمانا واقعی ایک فضیلت کی بات ہوتی ہے۔
وہاں بھی ہم نے کمائی حلال کی روزی!
جہاں پہ فرقِ حرام و حلال کوئی نہ تھا
ظہور نظر
٭٭٭٭٭٭