پاکستانی کھانوں کے بعد مجھے چائنیز کھانے بہت پسند ہیں۔ لندن کے چائنیز ریسٹورانٹس اور ٹیک اویز پر جو کھانے دستیاب ہوتے ہیں وہ اُن کھانوں سے یکسر مختلف ہیں جو پاکستان میں چائنیز کھانوں کے نام پر لوگوں کو کھلائے جاتے ہیں۔ وطن عزیز کے چائنیز کھانوں میں جس چٹ پٹے ذائقے کو متعارف کرایا گیا ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ ایک تو برطانوی دارالحکومت میں حلال چائنیز کھانے کے ریستوران بہت کم ہیں اور جو ہیں اُن کے کھانوں میں پاکستانی چائنیز کھانوں جیسا چٹ پٹا ذائقہ نہیں ہوتا۔ ہم پاکستانی ہر غیر ملکی کھانے کو اپنے ذائقے کے مطابق بنا کر اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وہ اوورسیز پاکستانی جو ایک بار پاکستان کے چائنیز کھانوں کے ذائقے سے آشنا ہو جائیں انہیں پھر کسی اور ملک کے چائنیز کھانے پسند نہیں آتے چاہے وہ چین ہی کیوں نہ ہو۔ برطانیہ ایک ملٹی کلچرل ملک ہے جہاں درجنوں طرح کے کھانوں کے ریسٹورانٹس سیاحوں اور مقامی لوگوں کو لذت کام و دہن کی دعوت دیتے ہیں۔ برطانوی لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو گھر میں کھانا بنانے کی بجائے ریسٹورانٹس سے کھانا کھانے یا منگوانے کو ترجیح دیتی ہے۔ اس لئے پورے یونائیٹڈ کنگڈم میں ہر طرح کے ریسٹورانٹس اور ٹیک اویز کا کاروبار دِن بہ دِن فروغ پا رہا ہے۔ اس وقت پورے ملک میں 57ہزار سے زیادہ ریسٹورانٹس اور فوڈ بارز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ یہ ایک دلچسپ اور حیران کن حقیقت ہے کہ انگلینڈ کی سرکاری ڈش چکن تکّہ مسالا ہے جبکہ ایک زمانے میں فش اینڈ چپس کو انگریزوں کی مرغوب غذا سمجھا جاتا تھا۔ ویسے تو انگریز برصغیر میں آنے کے فوراً بعد ہی مرچ اور گرم مسالے کے ذائقے سے روشناس ہو گئے تھے لیکن پھر رفتہ رفتہ وہ اس کے عادی بھی ہو گئے۔ اِن دِنوں برطانیہ میں تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار کری اور کباب ریسٹورانٹس ہیں جہاں انگریزوں اور دیگر ملکوں کے لوگوں کی بڑی تعداد پاکستانی، بنگلہ دیشی اور انڈین کھانوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے آتی ہے۔ ایسٹ لندن میں طیب کے نام سے ایک حلال ریسٹورانٹ ایسا بھی ہے جہاں کھانے کے لئے آنے والوں کو شراب فروخت نہیں کی جاتی۔ البتہ اگر کوئی باہر سے شراب خرید کر ریستوران میں لے آئے تو اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اسی لئے اس ریستوران میں ویک اینڈ پر انگریزوں کا بہت رش ہوتا ہے جو چٹ پٹے کھانے سے پہلے الکوحل سے اپنا دل بہلاتے اور پھر جی بھر کے کھانا کھاتے ہیں۔ مانچسٹر میں ومزلو روڈ دیسی اور خاص طور پر پاکستانی کھانوں کے لئے بہت مشہور اور مقبول ہے جہاں کے درجنوں بڑے بڑے اور شاندار ریسٹورانٹس چٹورے لوگوں کے لئے بڑی کشش رکھتے ہیں۔
اختتام ہفتہ پر مانچسٹر کے گردو نواح سے سینکڑوں لوگ ومزلو روڈ آتے ہیں اور ان میں سے اکثریت غیر ایشیائی لوگوں کی ہوتی ہے جو لذیذ پاکستانی کھانوں کے ذائقوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ برطانوی دارالحکومت لندن کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ یہاں پبلک ٹرانسپورٹ اور کھانے چوبیس گھنٹے دستیاب ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی کھانوں کا ذائقے اور چٹخارے کے معاملے میں کوئی ثانی نہیں لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک کے کھانے ذائقے دار نہیں ہوتے۔ لندن میں موروکو کی تاجین، ایران کے چلّو کباب، ترکیہ کی گرل پلیٹر، سپین کی پائلا، انڈین گجرات کا ڈھوکلا اور دیگر کئی ملکوں کے مزیدار کھانے چکھنے بلکہ کھانے سے پہلے میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ پاکستانی کھانے دنیا کے بہترین اور لذیذ ترین کھانے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی بریانی، قورمہ، پلاؤ، نہاری، حلیم اور دیگر کئی ڈشز برطانیہ بھر میں مقبول ہیں جبکہ زردہ، کھیر اور حلوے کے علاوہ پاکستانی مٹھائیاں بھی بہت رغبت سے کھائی جاتی ہیں۔ بہت سے پاکستانی برطانیہ آ کر جب کڑاہی گوشت یا کباب کھاتے ہیں یا پھر برفی اور موتی چور کے لڈو کا ذائقہ چکھتے ہیں تو انہیں یہ سب چیزیں پاکستان میں بننے والے کھانوں او رمٹھائی سے بھی زیادہ لذیذ لگتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں گوشت، تیل، دودھ سب سو فیصد خالص ملتا ہے جن سے کھانوں کی لذت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ا س کے علاوہ برطانیہ کے پاکستانی ریسٹورانٹس میں جو کھانے بنائے جاتے ہیں اُن میں ہر شے ناپ تول کر ڈالی جاتی ہے اس لئے اُن کا ذائقہ اور معیار برقرار رہتا ہے۔ کئی برس پہلے ایک انگریز نے پاکستانی اور انڈین کھانے کے بہترین شیف کا ایوارڈ جیتا جب اس سے پوچھا گیا کہ اتنے لذیذ کھانے بنانے کا راز کیا ہے تو اس نے بتایا کہ میں ہر کھانے میں جو مسالے ڈالتا ہوں وہ اندازے سے نہیں بلکہ ہمیشہ ناپ تول کر ڈالتا ہوں جس کی وجہ سے میرے کھانوں کا ذائقہ کبھی خراب نہیں ہوتا اور اُن کی کوالٹی بھی برقرار رہتی ہے۔ سوشل میڈیا کے فروغ کی وجہ سے اب ہر کھانے کی ترکیب بڑی آسانی سے میسر آ جاتی ہے اور ہم کسی بھی ملک کے کھانے ترکیب کے مطابق اچھے سے اچھا کھانا گھر پر ہی بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔لندن میں پاکستانی، انڈین، ترکش، ایرانی، اطالوی اور ایفرو کیریبئین کھانوں کے علاوہ چائنیز کھانے بہت رغبت سے کھائے جاتے ہیں۔خاص طور پر چائنیز ٹیک اوے ہر علاقے میں موجود ہیں۔برطانیہ میں چینی باشندوں کی آبادی ایک لاکھ چوبیس ہزار کے قریب ہے اور یوکے میں گیارہ ہزار سے زیادہ چائنیز ریسٹورانٹس اور ٹیک اوے کامیابی سے چل رہے ہیں۔ سنٹرل لندن میں سوہو کے علاقے میں ایک ایسا چائنا ٹاؤن موجود ہے جہاں تقریباً ایک سو چینی ریسٹورانٹس ہیں۔ اِن میں ہر طرح کے روایتی چینی کھانوں سے گاہکوں کی تواضع کی جاتی ہے۔ ویسے تو مانچسٹر، برمنگھم، لیورپول، شیفیلڈ اور نیوکاسل میں بھی چائنا ٹاؤن ہیں لیکن جو بات لندن کے چائنا ٹاؤن کی ہے اس کا کوئی ثانی نہیں۔ اس کے مرکزی گیٹ سے داخل ہوتے ہی یوں لگتا ہے کہ یہ چین کا کوئی شہر ہے۔ اس ٹاؤن کے چار بڑے گیٹ ہیں۔ نئے چینی سال کے آغاز پر چائنا ٹاؤن میں خصوصی تقریبات اور کھیل تماشوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ ٹاؤن کئی اعتبار سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔جو بھی ایک بار لندن آ کر اس پر رونق چائنا ٹاؤن کا نظارہ کرنے جاتا ہے وہ اس کی رعنائی کا قائل ہو جاتا ہے۔ یہاں کے شاندار ریسٹورانٹس، سپر مارکیٹ، آرٹ شو، بیوٹی پارلرز، بیکریز اور گہما گہمی دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ آپ چین کے کسی صاف ستھرے جدید ٹاؤن کی سیر کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ برطانیہ ہر سال تقریباً 91بلین ڈالرز کی مختلف اشیا چین سے امپورٹ کرتا ہے اور خاص طور پر بریگزٹ کے بعد اس امپورٹ میں مزید اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ہر برس ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ طالب علم اعلیٰ تعلیم کے لئے چین سے برطانیہ آتے ہیں اور مختلف برطانوی یونیورسٹیز سے حصول تعلیم کے بعد اپنے وطن واپس جا کر ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ چین سے تجارتی تعلقات ویسے تو ہر ملک کی اقتصادی مجبوری ہے لیکن برطانیہ کے چین سے خوشگوار اقتصادی تعلقات استوار ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی وفود کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ چین کے متمول تاجروں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جس نے لندن میں مختلف طرح کے کاروبار اور پراپرٹی سیکٹر میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ برطانیہ میں آباد چائنیز کمیونٹی کے بارے میں عام تاثر ہے کہ یہ پُرامن لوگ ہیں جو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ ایک چینی کہاوت ہے کہ یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ بلی کالے رنگ کی ہے یا سفید۔ یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ چوہے پکڑ سکتی ہے یا نہیں؟